کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 298
﴿نستعین﴾ سے توحید کا دوسرا معنی ثابت ہوا، کیونکہ جو شخص ایسا ہو کہ اس کے غیر سے استعانت نہ کی جائے تو ایسا کب ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی شریک ہو؟ بلکہ اس کا عبادت میں تنہا ہونا اور اس کے لیے توحید کا خالص ہونا واجب ہو جاتا ہے، اس لیے کہ اس شخص کا وجود، جس سے مدد نہیں لی جاتی ہے، عدم کی طرح ہے۔ ﴿إیاک نستعین﴾ سے تین دلالتوں پر کلام ﴿إیاک نعبد﴾ پر کلام کی طرح ہے، یہاں دوبارہ اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔ 25، 26، 27۔﴿إھدنا الصراط المستقیم﴾ میں اخلاصِ توحید: صرف اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرنا، اس اعتبار سے کہ یہ فعل ﴿إھدنا﴾ ان دو فعلوں کے بعد واقع ہوا ہے جن کا معمول ان پر مقدم تھا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا حکم انہی کے حکم کی طرح ہے، اگرچہ فی الجملہ ﴿إھدنا الصراط المستقیم﴾ میں کلام کا اسلوب بدل گیا ہے۔ ’’نستھدي أو نطلب الھدایۃ‘‘ نہیں کہا ہے کہ یہ بات صحیح ہو جاتی کہ یہ ضمیر مقدم و منصوب تقدیراً اس فعل کی معمول ہے، لیکن اس میں مخاطبت کے بقا اور عدم خروج کے مقتضا کے باوجود اس ضمیر سے نظر اوجھل نہیں جو اس صورت میں واقع ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ﴿إھدنا﴾ فعل اور مسند الیہ کے درمیان متوسط ہے۔ پھر ضمیر جمع میں ایک اور معنی پایا جاتا ہے جو اخلاصِ توحید کے حق تعالیٰ کے ساتھ اختصاص کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ اسی وجہ کے اعتبار سے ہے جو سابقہ دونوں فعلوں ﴿إیاک نعبد﴾ اور ﴿إیاک نستعین﴾ میں گزر چکی ہے۔ پھر اس ہدایت کے صراطِ مستقیم کی ہدایت ہونے میں کہ حقیقت میں یہی ہدایت ہے اور یہی ہدایت صراطِ استقامت کی طرف معتبر ہے، ایک تیسرا معنی پایا جاتا ہے جو اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 28۔ ﴿صراط الذین أنعمت علیھم﴾ میں توحید پر دلالت: جو ایسی راہ کی طرف ہدایت دینے والا ہو، جو راہ انعام یافتہ لوگوں کی راہ ہو تو وہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ کوئی اس کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ مصروف نہ ہو اور اس کے سوا کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھے، کیونکہ راہ راست پر چلنے سے مقصود اور تمام حرکات سے مراد یہی ہے کہ وہ نعمتوں کے حصول کے راستوں تک پہنچ جائے، اور یہ نفسِ نعمت کی طرف پہنچنے سے کنایہ ہوتا ہے، اس لیے اگر اس