کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 260
’’غربا وہ لوگ ہیں جو فتنوں کے اندیشے سے اپنے دین کو لے کر بھاگتے ہیں ] وخرّجہ الترمذي من حدیث کثیر بن عبد اللّٰه المزني عن أبیہ، عن جدہ، عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( إِنَّ الدِّیْنَ بَدَأَ غَرِیْباً وَیَرْجِعُ غَرِیْباً فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَائِ الَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِيْ مِنْ سُنَّتِيْ )) [1] [اس حدیث کو امام ترمذی نے کثیر بن عبداللہ مزنی کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بیشک دینِ اسلام کا آغاز اجنبی صورت میں ہوا اور آغاز ہی کی طرح وہ عنقریب لوٹے گا، پس غربا کے لیے بشارت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو میرے بعد میری اس سنت کو درست کریں گے جس کو لوگوں نے خراب کر دیا ہے] امام طبرانی نے اس کو حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، جس میں یوں مذکور ہے: ’’قِیْلَ: وَمَنْ ہُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘ قَالَ: (( اَلَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ حِیْنَ یَفْسُدُ النَّاسُ )) [2] [کہا گیا کہ وہ غربا کون لوگ ہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اصلاح کرتے ہیں جب لوگ بگڑ جاتے ہیں ] پھر اس کو شریک بن سعد[3] نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: (( فَطُوْبیٰ یَوْمَئِذٍ لِّلْغُرَبَائِ إِذَا أَفْسَدَ النَّاسُ )) [4] [پس بشارت ہے اس دن غربا (اجنبی لوگوں ) کے لیے جب لوگ دین میں فساد وخلل ڈالیں گے] سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع حدیث میں یہ الفاظ مروی ہیں : (( طُوْبیٰ لِلْغُرَبَائِ )) ’’قُلْنَا: وَمَا الغُرَبَائُ؟‘‘ قَالَ: (( قَوْمٌ صَالِحُوْنَ، قَلِیْلٌ فِيْ نَاسٍ
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۳۰) [2] المعجم الأوسط (۵/ ۱۴۹) [3] مطبوعہ کتاب میں اسی طرح ہے جو سبقتِ قلم کا نتیجہ ہے، کیوں کہ یہ حدیث شریک بن سعد کے بجائے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیرو اوسط اور معجم صغیر میں روایت کیا ہے، جیسا کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد (۷/۲۷۸) میں ذکر کیا اور کہا ہے کہ اس کے تمام روات بکر بن سلیم کے سوا صحیح راوی کے ہیں اور بکر بن سلیم بھی ثقہ ہیں ۔ [4] مسند أحمد (۴/۷۳)