کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 254
کو تیرہ سو برس [بلکہ سوا چودہ سو برس] گزر گئے ہیں ۔ اِس زمانے کے نفاق، شرک اور کفر پرستی کی کیا انتہا ہو سکتی ہے؟ ہم نفاق عملی کو کیا روئیں ؟ جہاں نفاق اعتقادی ایمان ٹھہرے اور بدعت کو کیا جھینکیں کہ یہاں شرک اکبر و اصغر اسلام سمجھا گیا ہے۔ تقلید سنت ٹھہری ہے۔ اتباع بدعت قرار پایا ہے۔ ہر معروف مثل منکر کے اہلِ زمان کی نظر میں مکروہ نظر آتا ہے اور ہر مکروہ مثل معروف کے اہلِ بدع کے نزدیک محبوب ہو گیا ہے۔ غرض کہ دین و اسلام کا کارخانہ پلٹ گیا اور اتباعِ سنت کا مُلک ویران ہو گیا۔ سلطنت بدعت کی آئی، حکومت رائے کی ٹھہری، شرک وکفر کا ہر گھر میں ڈنکا بجا، محبتِ دنیا اور متاعِ دنیا نے ایمان کا گھر برباد کر دیا۔ اکثر خلق حزب اللہ سے خارج ہو کر حزب الشیطان (شیطان کی جماعت) میں داخل ہو گئی۔ اتفاق کی جگہ اختلاف نے قدم جمایا۔ اور انصاف کے مقام میں اعتساف حکمران ہوا۔ اختلاف کی ممانعت: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں لکھا ہے: ’’یہ اختلاف جس کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی ہے یا توفقط دین میں ہوتا ہے یا دنیا و دین دونوں میں معاً اور کبھی یہ اختلاف فقط دنیا میں ہوتا ہے۔‘‘[1] بالجملہ جس اختلاف کا ذکر ان حدیثوں میں آیا ہے، یہ وہ اختلاف ہے جس سے قرآن میں ممانعت فرمائی ہے: ﴿ وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ﴾ [آل عمران: ۱۰۵] [اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے پاس روشن دلائل آ جانے کے بعد بھی تفرقہ کر ڈالا اور اختلاف کیا] ﴿ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [الأنعام: ۱۵۳] [اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا
[1] اقتضاء الصراط المستقیم (ص:۳۳)