کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 243
مشہدِ علی رضی اللہ عنہ : رافضہ نے مشہد علی رضی اللہ عنہ کو ایک بت کدہ ٹھہرا رکھا ہے۔ اُن کے قبے میں رکوع وسجدہ ہوتا ہے۔ وہاں دعا واستعانت کی جاتی اور نذر اور نیاز ومنت مانی جاتی ہے۔ یہاں کے جہلا کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے دلوں میں علی رضی اللہ عنہ کی جتنی ہیبت اور جلال محسوس کرتے ہیں ، اس کا دسواں حصہ بھی اللہ تعالیٰ کی تعظیم بجا نہیں لاتے۔ جس کو دیکھو، اللہ کی جھوٹی قسم کھاتا ہے اور خدا سے نہیں ڈرتا، مگر کیا مجال ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی جھوٹی قسم کھائے۔ اُن کا اعتقاد یہ ہے کہ غیب کی چابیاں علی رضی اللہ عنہ کے پاس ہیں ، لہٰذا اُن کی زیارت کو ستر حج سے زیادہ افضل بتاتے ہیں ۔ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ان کا غلو شنیع اور شرک قبیح اُس سے بھی زیادہ ہے، جو نصاریٰ کے ہاں مسیح علیہ السلام کے حق میں ہے سوا دعویٰ ولدیت کے۔ یہ سب خصال ردیہ میں نصاریٰ سے بڑھ گئے ہیں ۔ قبر پر قبہ مذہب مطلا (سنہرے سونے کا) تیار کیا ہوا ہے۔ ایک جہاں کا وہاں دربار ہے، حالانکہ علی رضی اللہ عنہ نے اُن لوگوں کو جو اُن کے حق میں غلو کرتے تھے، آگ میں جلا دیا تھا۔ جو کچھ ہم نے یہاں ذکر کیا ہے، یہ ان کو دائرہ اسلام سے نکالنے اور واضح طریقِ دین سے باہر کرنے میں دلیل کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح کا شرکِ منکر اور کفرِ قبیح مشہدِ کاظم اور مشہدِ حسین پر ہوتا ہے۔ وہ ملازمتِ قبر، صبح و شام کے منکرات، تعظیم، عبادت اور تمام احوال میں کثرتِ زیارت میں اِس قدر بڑھا ہوا ہے جو خداے واحد قہّار کے لیے بھی نہیں ہے۔ اسی کفر وفجور پر ایسے رذیل اور کم عقل لوگوں کا نشوونما ہوا ہے۔ ایسے گمراہ لوگوں کے درمیان کبھی اللہ رب العزت کا ذکر نہیں آتا، ان کا ذکر بس علی رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ اور بقیہ آل بیت کو پکارنا ہوتا ہے۔ اہلِ بصرہ کی قبر پرستی: رہے بلادِ شط ومجرہ تو وہاں کے لوگ قعرِ شرک وضلالت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ یہی حال بصرہ اور اس کے اردگرد کا ہے کہ وہاں بھی قباب ومشاہد موجود ہیں ۔ انواعِ شرک کے قاصد ہر طرف سے وہاں چلے آتے اور اُن قبوں کے لیے نذر ونیاز لاتے ہیں ۔ خصوصاً قبر حسن بصری رحمہ اللہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سے استغاثہ ہوتا ہے۔ یہ منکرات ومفاسد عموماً دیکھے جاتے ہیں اور کوئی بھی ان کا منکر نہیں ہے۔ قطیف وبحرین میں زور وشور سے روافض کی بدعات جاری ہیں اور مشاہد شرکیہ پر امور شنیعہ بجا لائے جاتے ہیں ۔ مسقط میں خوارج رہتے ہیں ، جن کو حدیث میں ’’کِلَابُ النَّارِ‘‘ [جہنمی کتے] فرمایا ہے۔[1]
[1] مسند أحمد (۴/۳۵۵)، سنن ابن ماجہ (۱۷۳)، نیز دیکھیں : ظلال الجنۃ للألباني (۹۰۴)