کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 236
ایک جمِ غفیر اس فعل کا چشم دید ہے اور ایک جمعِ کثیر اس عمل کا علانیہ ارتکاب کنندہ ہے۔ اول تو وہاں کوئی اہلِ علم نہیں ہے، اور جو بعض مقلدینِ مذاہب وہاں قاضی اور مفتی ہیں اور اپنے آپ کو عالم خیال کرتے ہیں ، وہ سب بدعقیدہ مبتدعین اور مشرکین ہیں ۔ ایسے لوگ اس منکر عمل کا ازالہ وتغییر کیوں کرنے لگے؟ بلکہ وہ تو خود حق کے مقابل اور اہلِ باطل کے مددگار ہیں ، جو توحید وسنت کے روشن چراغ کو مٹانا چاہتے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَجَادَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِہٖ الْحَقَّ فَاَخَذْتُھُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ﴾ [المؤمن: ۵] [اور انھوں نے باطل کے ساتھ جھگڑا کیا، تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو پھسلا دیں ، تو میں نے انھیں پکڑ لیا، پھر میری سز ا کیسی تھی؟] نیز فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآئَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ﴾ [الفاطر: ۳۷] [اور کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی کہ اس میں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا نصیحت حاصل کر لیتا اور تمھارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا۔ پس چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ] اہلِ مکہ کی حالتِ زار: بیس برس قبل مَیں حج پر گیا تھا تو مجمع حجاج کو ایک میلے کی طرح پایا۔ مزدلفہ میں آتش بازی کا ہنگامہ گرم ہوا۔ ایک ایک نار دو دو میل آسمان کی جانب جاتا تھا۔ اتواپ سر ہوتے تھے۔ ترک فوجیوں کا دستہ وردی پہنے ہوئے عرفات کو جاتا تھا۔ خاص شہر مکہ میں شراب کی دکان اور زانی عورتوں کا محلہ سنا گیا۔ شادی بیاہ میں بدعاتِ عجم کا مروج ہونا معلوم ہوا۔ اس طرح کی صدہا منکرات علی الاعلان وہاں موجود ہیں جو روز افزوں ہوتی ہیں ۔ مزید برآں وہاں کسی کی آبرو محفوظ ہے، کسی کا مال امن میں ہے اور نہ کسی کا خون معصوم ہے۔ فإنا للّٰہ وإنّا إلیہ راجعون۔ اسی لیے ملّا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے بدعاتِ حرمین کو ایک مستقل رسالے میں جمع کیا ہے، لیکن وہ