کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 225
اس امت میں شرک وبدعت کی کثرت اس طرح ہوئی کہ لوگوں نے قرآن کا سیکھنا سِکھانا، پڑھنا پڑھانا اور اس پر تدبر وتفکر کرنا چھوڑ دیا اور ہر کسی کے اجتہاد وقیاس کو حکمِ خدا ورسول علیہ السلام سمجھ کر سنت مطہرہ سے کچھ علاقہ نہ رکھا، پھر اس رسم وعادت کا رواج نسل در نسل اس درجے تک پہنچ گیا کہ جملہ عوام اور غالب خواص کالعوام بلکہ کالانعام نے یہ سمجھ لیا کہ اب کوئی بشر امت میں ایسا نہیں ہے جو قرآن وحدیث کو سمجھے، ان کے سمجھنے والے وہی چار امام یا ان کے امثال کرام تھے، حالانکہ یہ خیال وقیاس محض ایک وسوسۂ خنّاس کے سوا کچھ نہیں ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد بشر کو قرآن میں غور کرنے کا حکم دیا ہے: ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ [القمر: ۱۷، ۲۲، ۳۲، ۴۰] [اور بے شک ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے، پس کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟] نیز آیاتِ قرآن کو واضحات بیّنات فرمایا ہے، یعنی ان کو سمجھنا بوجھنا کسی پر کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہر شخص، عالم ہو کہ جاہل، اُس کو پڑھ کر یا اہلِ ذکر سے پوچھ کر سمجھ سکتا ہے۔ یہی حال احادیث مطہرہ کا ہے۔ قرآن کے بعد کسی کا بیان رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان سے بڑھ کر واضح نہیں ہے۔ کوئی اس میں شک کرے تو کتبِ فقہ وغیرہ کو دواوینِ قرآن وسنت سے مِلا کر دیکھے کہ لفظ ومعنی کی جو دشواری عباراتِ قوم اور علما وفقہا کے اقوال میں ہے، کتاب وسنت کے الفاظ وعبارات میں وہ دقت نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو شخص ان کے فہم کا مُنکر ہے، گویا وہ اپنی جہالت کا اقرار کرتا ہے اور اُس کا یہ جہل حقیقت بھی ہے، کیونکہ اس کی ولادت تقلید کے گھر میں ہوئی ہے نہ کہ محل توحید میں ، اور اُس نے سراے بدعت میں تربیت پائی ہے نہ کہ مدرسۂ سنت میں ۔ وہ اگر یہ نہ کہے کہ میں قرآن وحدیث کا جاہل اور علم حق سے تہی دست ہوں تو اور کیا کہے؟ امام ابن عبدالبر، علامہ فلّانی اور شوکانی رحمہم اللہ جیسے اہلِ علم نے کہا ہے کہ سلفِ امت مقلدِ مذہب پر لفظِ عالم کا اطلاق نہیں کرتے تھے، اگرچہ وہ کتب کا کیڑا کیوں نہ ہوتا۔ اس لیے کہ تقلید جہل محض ہے، اس پر علم کا اطلاق نہیں ہو سکتا اور مقلدین جہلا ہیں ، جو مسئلے کو دلیل سے نہیں جانتے۔[1] لہٰذا سب سے زیادہ شرک وبدعت میں یہی لوگ گرفتار ہیں ۔ ان کو اگر قرآن وحدیث کی
[1] دیکھیں : جامع بیان العلم (۲/۲۲۰) إیقاظ ھمم أولي الأبصار للفلاني، القول المفید للشوکاني۔