کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 200
مشرکین سے وجوبِ قتال کی ایک اور دلیل یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً﴾ [التوبۃ: ۳۶] [اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو] یہ تو مشرکین سے قتال کرنے کے قرآنی دلائل تھے، اب فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم بھی سنیے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( أُمِرْتُ أَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَ یُؤْتُوْا الزَکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَھُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ )) [1] [مجھے لوگوں سے لڑائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یقینا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں ، اور وہ نماز قائم کریں ، اور زکات ادا کریں ، جب وہ یہ کام کریں گے تو وہ حقِ اسلام کے سوا مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے] امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف قتال کرنے کا حکم ہے، وہ اہلِ اوثان بت پرست ہیں نہ کہ اہلِ کتاب، کیونکہ اہلِ کتاب تو ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ پڑھتے ہیں ۔ ثابت ہوا کہ انھیں اہلِ اوثان سے مقاتلہ کیا جاتا ہے اور ان سے تلوار دور نہیں کی جاتی۔[2] قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تلوار سے بچاؤ اسی شخص کو حاصل ہو گا جو ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کا قائل ہو گا اور ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ اجابت و ایمان سے عبارت ہے۔ [3] احادیث نبویہ میں اس کلمے کی قیود و شروط بیان ہوئی ہیں ۔ اگر ان پر غور و فکر کیا جائے تو ایک بندہ مسلم بھی اپنے نفس کے متعلق خوف زدہ ہو جاتا ہے، چہ جائیکہ کہ کوئی شخص اہلِ شرک و طغیان میں سے ہو۔ احادیث میں بیان کردہ کلمے کی قیود و شروط میں سے ایک یہ ہے کہ اس کلمے میں شرک نہ کرے، اس کے متعلق دل میں کوئی شک و شبہہ نہ لائے، تکبر وجور نہ کرے، اس کلمے کو ہلکا اور معمولی نہ سمجھے۔ یہ کلمہ اسے ارتکابِ معاصی سے روکے اور وہ سچے دل سے یہ کلمہ پڑھے۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵)، صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲) [2] معالم السنن للخطابي (۱/۲۸۷) [3] شرح صحیح مسلم للنووي (۱/۲۰۷)