کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 190
﴿لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَاِلحًا۔۔۔﴾ حوا[ سے یہ شرک شیطان کی اطاعت میں ہوا تھا نہ کہ شیطان کی عبادت میں ۔ [1]
ہم نے دعا کے ندا کے معنی میں ہونے پر اس لیے بار بار آیات و احادیث سے استدلال کیا ہے، کیونکہ مفسرین دعا کو ہر مقام کے حسب حال پانچ معنوں پر محمول کرتے ہیں ۔ لغت میں اللہ کے متعلق دعا کا استعمال ایمان کے معنی میں ہے۔ چنانچہ فیروز آبادی نے ’’القاموس المحیط‘‘ میں کہا ہے:
’’الدعاء رغبۃ إلی اللّٰه، و عرف بأنہ دفع الحاجات إلی رفیع الدرجات‘‘
[دعا کا معنی ہے اللہ کی طرف رغبت کرنا اور عرف عام میں اس کا مطلب ہے حاجات کو رفیع الدرجات اللہ کے سامنے پیش کرنا]
جو شخص لوگوں سے مال کا سوال کرتا ہے، خصوصاً جب کہ اس کے پاس ضرورت کے مطابق صبح و شام کا کھانا موجود ہے تو شریعت میں اس کی سخت وعید آئی ہے، اب اس شخص کا کیا حال ہو گا جو مُردوں سے قضاے حاجات کا سوال کرتا؟
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَوَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدٌ﴾ [فصلت: ۵۳]
[کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے]
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
﴿ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ *وَاِِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ﴾ [الأحقاف: ۵۔۶]
[1] مسند أحمد (۵/۱۱) اس کی سند میں موجود راوی ’’عمر بن ابراہیم البصری‘‘ سے متعلق امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لا یحتج بہ‘‘ ’’وہ قابل حجت نہیں ‘‘۔ پھر جیسے کہ دوسری سند سے ثابت ہے کہ یہ روایت سمرہ بن جندب پر موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے، علاوہ ازیں اس کی سند میں حسن بصری رحمہ اللہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں ۔ نیز حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر مذکورہ تفسیر کے خلاف بھی بیان کی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۴/۲۷۴) اگر ان کے ہاں مذکورہ روایت مرفوع ہوتی تو وہ اسے کبھی نہ چھوڑتے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مسند احمد کی یہ روایت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔