کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 170
نے، پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں ؟] نیز فرمایا: ﴿ وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ﴾ [الزخرف:۹] [اور بلاشبہہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ تو یقینا کہیں گے کہ انھیں سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے نے پیدا کیا ہے] یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا اقرار تھا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون سے متعلق اس کے قبیح دعوے کے باوجود موسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہ بیان کیا ہے: ﴿ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآئِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ﴾ [بني إسرائیل: ۱۰۲] [اس نے کہا بلا شبہہ یقینا تو جان چکا ہے کہ انھیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، اس حال میں کہ واضح دلائل ہیں ] نیز ابلیس لعین نے کہا تھا: ﴿ اِِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [الحشر: ۱۶] [بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، جو تمام جہانوں کا رب ہے] اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی کہ جس طرح تم توحیدِ ربوبیت کا اقرار کرتے ہو، اسی طرح کلمہ ’’لا إلٰہ إلا اللہ‘‘ [اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ] کے معتقد بن جاؤ، اس کلمے کے معنی و مقتضا پر عمل کرو اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ چنانچہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ساری باتوں میں سے صرف اکیلے اللہ کی عبادت کرنے والی بات سے انکار کیا، انھوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا اور نہ اس کی عبادت ہی کا بلکہ انھوں نے اکیلے اللہ کی عبادت سے انکار کیا اور کہا: ﴿ اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰہَ وَحْدَہٗ وَ نَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا﴾ [الأعراف:۷۰] [کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اس اکیلے اللہ کی عبادت کریں اور انھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟]