کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 123
5۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں : ’’لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دینا جنت کی کنجی ہے۔‘‘[1] (رواہ أحمد) 6۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !’’مَانجاۃ ھذا الأمر؟‘‘ ’’اس امرِ (دین) میں نجات کس چیز کے ساتھ ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ((مَنْ قَبِلَ مِنِّيْ الْکَلِمَۃَ الَّتِيْ عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّيْ فَرَدَّ ھَا عَلَيَّ فَھِيَ لَہٗ نَجَاۃٌ)) [2] (رواہ أحمد) [جس شخص نے مجھ سے وہ کلمہ قبول کر لیا، جو میں نے اپنے چچا (ابو طالب) پر پیش کیا تھا اور اس نے اسے رد کر دیا تھا تو وہ کلمہ اس کے لیے نجات کا باعث بنے گا] اس حدیث میں کلمہ سے مراد ’’لا الٰہ الااللّٰه‘‘ اور اس کی شہادت دینا ہے۔ یعنی صدقِ دل سے اس کلمے کا قائل اور گواہی دینے والا ہی نجات پائے گا۔ اس کلمے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جو شخص اپنے اسلام میں احسان کے درجہ تک پہنچا ہوا محسن ہوتا ہے، اس کی ہر نیکی سات گنا اور دس گنا تک لکھی جاتی ہے، جبکہ اس کا گناہ ایک گناہ ہی لکھا جاتا ہے، حتی کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کو جا ملے۔ یہ خوبی عملِ صالح سے حاصل ہوتی ہے اور جو کوئی عملِ صالح پر عمل پیرا نہیں ، وہ اس ترقی سے محروم ہے، خواہ وہ کسی وقت نجات پا جائے۔ کسے کز لذت طاعت بود محروم من ضامن کہ بگذارند درجنت ولی باداغ حرمانش [جوشخص اطاعت (نہ کر کے اس) کی لذت سے محروم رہتا ہے، میں اس بات کا ضامن
[1] مسند أحمد (۵/۲۴۲) اس حدیث کی سند میں شہر بن حوشب اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے جس کی روایت اہلِ حجاز سے ضعیف ہوتی ہے اور مذکورہ حدیث کی سند میں اس کا استاد ’’عبدالرحمن بن ابی حسین مکی ہے۔‘‘ [2] مسند أحمد (۱/۶)