کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 122
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو شخص کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہوئے فوت ہوا تو وہ آگ میں داخل ہو گا۔‘‘[1] (رواہ مسلم) اس حدیث میں بتایاگیا ہے کہ دخولِ جنت و جہنم شرک اور عدمِ شرک پر منحصر ہے۔ اس میں بقیہ اعمال کا ذکر نہیں کیا گیا، اس لیے کہ موحد آدمی عملِ صالح سے ہر گز خالی نہیں رہتا ہے، کیوں کہ توحیدخالص بھی عملِ صالح ہے، بلکہ یہ تو راس الطاعات اور اشرف الحسنات ہے۔اس لیے موحد انسان چاہے بے عمل ہو، ایک دن جہنم سے نکل کر جنت میں جائے گا خواہ سیکڑوں ہزاروں برس کے بعد ہی سہی۔ 4۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’(اے ابوہریرہ!) اس دیوار کے پیچھے جو بھی تجھے ملے اور وہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور دل سے اس پر یقین رکھتا ہو، تو تم اسے جنت کی بشارت دو۔‘‘ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پسِ دیوار عمر رضی اللہ عنہ سے ملے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انھیں فرمانِ نبوی سنایا، لیکن انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مارا، وہ گر گئے اور روتے ہوئے واپس رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، ان کے پیچھے پیچھے عمر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور) عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !) مجھے خدشہ ہے کہ لوگ اس اجمالی بشارت کو سن کر اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے، لہذا آپ لوگوں کو (عمل کرنے کے لیے) چھوڑ دیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اچھا انھیں چھوڑ دو۔‘‘[2] (رواہ مسلم) مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یہ تھا کہ توحید خالص کا انجام یقینی طور پر جنت ہے، گو آغاز میں اس کا اقرار کرنے والاجنت میں داخل نہ ہو سکے۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۹۳) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۱)