کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 119
کی تھی۔[1]ایسا شخص اس وجہ سے ثواب سے محروم ہے کہ اعمال نیتوں کے ساتھ معتبر ہوتے ہیں نہ کہ ظاہری شکل و صورت کے ساتھ۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّۃِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَانَویٰ، فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ إِلٰی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ إِلٰی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ إِلٰي دُنْیَا یُصِیْبُھَا أَ وِ امْرَأَۃٍ یَّنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ إِِلٰی مَا ھَاجَرَ إِلَیْہِ)) [2] (متفق علیہ)
[اعمال تو صرف نیتوں کے ساتھ معتبر ہیں اور ہر شخص کو صرف وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہو گی، اور جس شخص کی ہجرت دنیا کو حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہوئی تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہو گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی]
یہ حدیث اصول دین میں سے ایک عظیم اصل اور بنیاد ہے۔ سارے اعمال اسی کے گرد گھومتے ہیں ۔ چنانچہ حج کی یہ حالت ہے کہ اگر اداے فریضہ کی نیت سے شریعت کے مطابق حج کیا جائے تو وہ گناہوں کو مٹانے والا ہو گا اور اگر دنیا کا کوئی مطلب پورا کرنے کے لیے کسی نے حج کیا تو بہ ظاہر اس کا فرض ادا ہوجائے گا، لیکن اسے وہی کچھ ملے گا جس کی اس ’’حاجی‘‘ نے نیت کی ہے۔ مثلاً کسی شخص کا اپنی بیوی سے اختلاف ہو جائے تو وہ وقت گزاری کے لیے مکہ چلا جائے یا اس حیلے کے ذریعے سے دنیا کمانا مقصود ہو یا عزیز و اقارب کے فتنہ و فساد کی وجہ سے چند روز باہر گزار آنا پیش نظر ہو یا وہ کسی سے نکاح کرنا چاہتا ہے جس سے یہاں نکاح نہیں ہو سکتا۔ غرض کہ جو نیت ہو گی، وہی کچھ حاصل ہو گا، ایسے شخص کو حج کا ثواب نہیں ملے گا۔
[1] المعجم الکبیر للطبراني (۹/۱۰۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ھٰذا إسناد صحیح علیٰ شرط الشیخین‘‘ (فتح الباري: ۱/۱۰)
[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱، ۵۴، ۲۳۹۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۰۷)