کتاب: مجموعہ رسائل عقیدہ(جلد1) - صفحہ 114
وفدِ عبد القیس سے متعلق حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وفد کے ارکان نے یہ سوال کیا تھا کہ اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ و أن محمداً رسول اللّٰہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا اور رمضان کا روزہ رکھنا۔‘‘[1] (متفق علیہ) اس حدیث میں بھی ایمان میں اعمالِ دین کو معتبر شمار کیاگیا ہے۔ اعمالِ صالحہ اداکرنے اور ترکِ معصیت پر بیعت لینا: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے فرمایا تھا: ’’تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، اولاد کو قتل نہ کرو، بہتان نہ باندھواور کسی امر میں میری نافرمانی نہ کرو۔ جو کوئی تم میں سے اس بیعت کو پورا کرے گا، اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہے اور جو کوئی ان کاموں میں سے کسی کام کا مرتکب ہو گا اور پھر دنیا میں اسے اس عمل کی سزا مل جائے گی (اس پر شرعی حد جاری ہو گی) تو وہ سزا اس کے لیے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔ جس کسی نے ان میں سے کوئی کام کیا، پھر اللہ نے اس گناہ پر پردہ ڈال دیا تو اس کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، چاہے اس کو بخش دے اور چاہے اس پر سزا دے۔ (صحابی کا بیان ہے کہ) ہم نے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت کی۔‘‘[2] (متفق علیہ) اس حدیث میں اس بات کی بشارت ہے کہ جس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا گیا، ان شاء اللہ اسے معاف کر دیا جائے گا۔ شرک سے اجتناب کی اہمیت و فضیلت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۶۷۹، ۶۷۸۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۰۹)