کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 84
دوسرے ہنود اوسکے ذبح کرنے میں مانع ہوتے ہیں اور ان پاٹھیوں کا جس کو ہندو گنگا کو چڑھا دیتے ہیں اور ان غلوں کا جو چڑھائے گئے ہیں قبور و اوثان پر۔ بینوا توجروا۔ اور یہ سب ما أھل بہ لغیر اﷲ میں داخل ہیں یا نہیں ؟[1]
جواب : فی الواقع سانڈ حلال طیب ہے، کیوں کہ از روے آیات و احادیث کے تمام صحابہ اورعلماء تابعین و ائمہ مجتہدین نے سانڈ کو حلال فرمایا ہے۔ اس کا بیان تمام کتبِ تفاسیر میں موجود ہے۔ واﷲ اعلم حررہ
أبو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادي
3۔ خدا کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اور کسی نبی یا ولی کے لیے علم غیب اور حاضر و ناظر کا اعتقاد رکھنا؟[2]
سوال : سوائے خدا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یا اور کسی نبی یا ولی وغیرہ کے لیے علم غیب اور ہر جگہ حاضر ناظر ہونا ثابت ہے یا نہیں ؟ اور در صورت نہ ہونے کے جو شخص سوائے خدا کے کسی نبی یا ولی وغیرہ کے لیے علم غیب اور ہر جگہ حاضر ناظر ہونا ثابت کرے از روئے قرآن و حدیث کے اس پر کیا حکم ہوگا؟
جواب : علم غیب اور حضوری ہر جا کی مخصوص ہے ساتھ اللہ تعالیٰ کے۔ سوائے اس کے اور کسی میں ، خواہ
[1] دراصل یہ استفتا استاذ الاساتذہ حضرت حافظ محمد عبداﷲ غازی پوری رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، جس کا انھوں نے ’’الحجۃ الساطعۃ في بیان البحیرۃ والسائبۃ‘‘ کے نام سے مفصل جواب تحریر فرمایا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اگرچہ سانڈوں اور پاٹھیوں کا چھوڑنا اور غلوں کا چڑھانا محض ناجائز افعال اور بڑے گناہ کے کام ہیں ، بلکہ عین کفر و شرک ہیں ، لیکن یہ سانڈ اور یہ پاٹھی اور یہ غلے جو غیر اﷲ کے نام پر چھوڑے گئے یا چڑھائے گئے ہیں ، سب حلال ہیں ۔ کوئی ان میں سے بمجرد غیر اﷲ کے نام پر چھوڑے جانے اور چڑھائے جانے کے حرام نہیں ہوا۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے تفصیلی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ فعل اگرچہ شرک ہے، لیکن یہ جانور حلال ہیں ، جس کی تائید میں متعدد علما: مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری، مولانا شہود الحق عظیم آبادی، مولانا ابو الحسنات عبد الحی لکھنوی، مولانا محمد شبلی حنفی، مولانا محمد حفیظ اﷲ ندویS وغیرہ نے تصدیقات رقم کی ہیں ۔ مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادیa کا مندرجہ بالا تائیدی فتویٰ بھی اسی جواب کے آخر میں مطبوع ہے۔ دیکھیں : الحجۃ الساطعۃ (ص: ۱۵)
[2] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۱۴۷۔ ۱۴۸) [ع، ش]