کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 704
والقول بأنہ یطلب فعلہ مردود، لأن مثل ذلک لا یحتج بہ إلا إذا صح عن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم طلب ذلک، ولیس کذلک، انتہی ما في کتاب الجنائز في مطلب فیما یکتب علی کفن المیت۔ و بسیاری از افعال اندکہ بظاہر عبادت و موجب اجر معلوم می شوند ، و ہراجزاء او ہم احسن و نیکو اند، مگر مجموعہ آن باین ہیئت مخصوصہ ثابت از صاحب شرع نیستند ، پس کردنش روا نہ باشد۔ چنانکہ علامہ فقیہ برہان الدین مرغینانی در ہدایہ گفتہ: ’’یکرہ أن یتنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من رکعتي الفجر، لأنہ علیہ السلام لم یزد علیھا مع حرصہ علی الصلوۃ‘‘ انتھی و نیز درآن گفتہ: ’’لا یتنفل في المصلی قبل العید، لأنہ علیہ السلام لم یفعل مع حرصہ علی الصلوٰۃ‘‘ انتھی و در فتاوی عالمگیری مرقوم است: ’’قرائۃ ’’الکٰفرون‘‘ إلی الآخر مع الجمع مکروھۃ لأنھا بدعۃ لم ینقل ذلک عن الصحابۃ والتابعین کذا في المحیط‘‘ انتھی و بیان امر ثانی این است کہ قیاس کردن این را بر صدقہ ابل قیاس مع الفارق است ، چراکہ ہر صدقہ ابل کتابت لفظ اللہ برائے علامت و تمیز است ، و نوشتن بسم اللہ خواہ بانگشت بلاسیاہی خواہ بسیاہی برپیشانی یا بکفن میت برائے تبرک است ، و موافق زغم ایشان موجب نجات است ، فاین القیاس ؟ ابن العابدین در ردالمحتار گفتہ: ’’و القیاس المذکور ممنوع بأن القصد ثم التمیز، وھھنا التبرک، فالأسماء المعظمۃ باقیۃ علی حالھا فلا یجوز تعریضھا للنجاسۃ‘‘ انتھی۔ و ببین کہ قیاس کردن اذان راکہ بعد دفن میت می دہندبہ اذان مولود بظاہر صحیح معلوم می شود ، و بعض کسان برین قیاس کردہ حکم جواز ہم دادہ اند، چنانکہ بجائے خود مصرح است۔ مگر چونکہ این اذان بالخصوص درین موضع ثابت نیست، حکم بجوازش دادن خلاف امرحق ست۔ لہٰذا اکثر علما این اذان را محدث فی الدین قرار دادہ اند۔