کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 609
میں ۴۰۰ھ میں وفات پائی۔ المغرب میں مرقوم ہے کہ وہ نادرہ روزگار اور یکتاے زمانہ تھیں ۔ ابو عبداللہ طیب ان کے چچا تھے۔ اگر کہا جائے کہ شعر گوئی میں یہ ان سے بڑھ کر تھیں توغلط نہ ہوگا] گذشتہ تحریروں سے ظاہر ہو چکا ہے کہ شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو لکھنا پڑھنا سکھایا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے راضی و مطمئن تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صحابہ کے بعد بھی برابر خواتین لکھنا پڑھنا سیکھ کر مرتبہ کمال کو پہنچیں ۔ اس سلسلے میں عدم جواز کی تمام احادیث باطل اور موضوع ہیں ۔ ایسی احادیث کو سوائے حافظ ابو عبد اللہ الحاکم کے کسی نے صحیح نہیں کہا اور اس تصحیح پر تعاقب کرنا ضروری ہے، کیونکہ تصحیح حدیث کے سلسلے میں حافظ حاکم کا تساہل محدثین کے درمیان نہایت مشہور ہے، جب تک حفاظ ان کی موافقت نہ کریں ۔ بیہقی نے بھی اس حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے اور نہ شیخ جلال الدین سیوطی نے حاکم و بیہقی کی متابعت کی ہے۔ یہ بیہقی اور سیوطی پر افترائے عظیم ہے۔ حتیٰ کہ ’’اللآلیٔ المصنوعۃ‘‘ کے مطالعے سے اس کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اس کے برعکس حدیثِ شفا کی اسناد بالکل درست ہے، اس کے راوی صحیحین کے راوی ہیں ۔ کوئی جھگڑالو اور متعصب ہی اس حدیث کی سند پر جرح کرے گا۔ ابو داود و منذری نے حدیث شفا پر سکوت اختیار کیا ہے اور یہ ان دو حفاظ حدیث کا قاعدہ ہے۔ وہ سنن ابی داود کی جس حدیث پر سکوت کریں ، وہ حدیث پائے صحت پر متمکن ہوگی، نیز ابو عبداللہ الحاکم بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ مفسرین کا تفسیر سورہ نور میں عدم جواز کی احادیث نقل کرناحدیث کو قابل استدلال اور پائے صحت پر متمکن نہیں کرتا، کیونکہ مفسرین کرام نے اپنی تفاسیر میں احادیث صحیحہ کو نقل کرنے کا التزام نہیں کیا ہے۔ امام بغوی جو مقتداے اہل حدیث ہیں ، واہیہ، منکر و شاذ ہر قسم کی احادیث بلا تنقید اور راوی کے حالات جانے بغیر اپنی تفسیر مسمیٰ بہ معالم التنزیل میں بیان کرتے ہیں ۔ یہ فعل ان کی جلالت و شان سے نہایت بعید ہے۔ البتہ حافظ ابن کثیر نے اس امر کا خیال رکھا ہے اور اپنی تفسیر میں ا حادیث بیان کرنے کے ساتھ اس پر نقد و تنقید کا التزام بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تفسیر اس بنا پر دوسری