کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 608
صیتہا، وکانت وفاتہا یوم الأحد بعد العصر ثالث عشر المحرم سنۃ أربع وسبعین وخمس مائۃ، ودفنت بباب ابزر، وقد أینفت علی تسعین سنۃ من عمرھا۔ رحمھا اللّٰه تعالی‘‘[1] [فخر النساء شہدۃ بنت ابی نصر احمد بن الفرج بن عمر الابری ماہر کاتبہ تھیں ، مولد و وفات بغداد ہے، آپ علما میں سے تھیں ، خط نہایت عمدہ لکھتی تھیں ، خلق کثیر نے ان سے سماعت کی۔ ان کی سند بھی عالی تھی۔ اصاغر ان کی وجہ سے اکابر سے ملے، انھوں نے ابوالخطاب نصر بن احمد بن بطروانی، ابو عبد اللہ حسین بن احمد بن طلحہ النعالی، طلحہ بن محمد الزینبی، ابوالحسن علی بن حسین بن ایوب اور ابو الحسین احمد بن عبدالقادر بن یوسف ا ور فخر الاسلام ابو بکر محمد بن احمد الشاشی سے سماعت کی۔ ان کی شہرت اور ان کا ذکر بہت دور دور تک ہوا۔ ان کی وفات بروز اتوار بعد عصر ۱۳؍ محرم ۵۷۴ھ کو ہوئی۔ باب ابزر میں مدفون ہوئیں ۔ وفات کے وقت عمر تقریباً ۹۰ سال تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو] علامہ مقری ’’نفح الطیب‘‘ تاریخ اندلس کی دوسری جلد میں لکھتے ہیں : ’’عائشۃ بنت أحمد القرطبیۃ، قال ابن حبان في المقتبس: لم یکن في زمانھا من حرائر الأندلس من یعدلھا علما وفھما وأدبا وشعرا وفصاحۃ، تمدح ملوک الأندلس، و تخاطبھم بما یعرض لھا من حاجۃ، وکانت حسنۃ الخط، تکتب المصاحف، وماتت عذراء، لم تنکح، سنۃ أربع مائۃ، وقال في المغرب: إنھا من عجائب زمانھا وغرائب أوانھا، وأبوعبد اللّٰه الطیب عمّھا، ولوقیل أنھا أشعر منہ لجاز‘‘[2] انتھی [عائشہ بنت احمد قرطبیہ سے متعلق ابن حبان نے المقتبس میں فرمایا : یہ اندلس میں اپنے زمانے کی ذہین و فطین خاتون تھیں ۔ علم و فہم ، شعر و ادب اور فصاحت میں اپنے زمانے میں سب سے فائق تر تھیں ۔ شاہانِ اندلس کی مدح سرائی کر کے اپنی ضروریات کی تکمیل کیا کرتی تھیں ۔ مصاحف نہایت عمدہ خط میں لکھا کرتی تھیں ۔ کنوارے پن کی حالت
[1] وفیات الأعیان لابن خلکان (۲/ ۴۷۷) [2] نفح الطیب (۴/ ۲۹۰)