کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 607
عائشۃ بنت طلحۃ، قالت: قلت لعائشۃ وأنا في حجرھا وکان الناس یأتونھا من کل مصر، فکان الشیوخ ینتابوني لمکاني منھا، وکان الشباب یتأخّوني فیھدون إليّ، ویکتبون إليّ من الأمصار، فأقول لعائشۃ: یا خالۃ ھذا کتاب فلان وھدیۃ، فتقول لي عائشۃ: أي بنیّۃ فأجیبیہ و أثیبیہ، فإن لم یکن عندک ثواب أعطیتک، فقالت: تعطیني‘‘ رواہ البخاري في الأدب المفرد۔[1] [خواتین کا خط لکھنا اور اس کا جواب دینا۔ عائشہ بنت طلحہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرماتی ہیں : میں ان کے پاس تھی، لوگ مختلف شہروں سے مجھے خطوط لکھتے اور تحفے دیتے۔ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کرتی کہ خالہ جان یہ خط اور ہدیہ فلاں نے بھیجا ہے، توآپ جواب میں فرماتیں ، انھیں جواب لکھو اور ہدیے میں بھی کچھ روانہ کرو۔ اگر تمھارے پاس نہ ہو تو میں تمھیں دے دوں گی، لہٰذا وہ مجھے کچھ دے دیا کرتیں ] کتبِ تاریخ کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ہمیشہ لکھنا پڑھنا سیکھتی رہی ہیں اور کبھی علماے عصر نے اس پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ خود خواتین میں سے بعض خط کتابت کی ماہر اور صاحب علم و عمل ہوئی ہیں ۔ قاضی احمد بن خلکان ’’و فیات الأعیان‘‘ میں رقمطراز ہیں : ’’فخر النساء شھدۃ بنت أبي نصر أحمد بن الفرج بن عمر الأبري الکاتبۃ، الدینوریۃ الأصل، البغدادیۃ المولد والوفاۃ، کانت من العلماء، وکتبت الخط الجید، وسمع علیھا خلق کثیر، وکان لھا السماع العالي، ألحقت فیہ الأصاغر بالأکابر، سمعت من أبي الخطاب نصر ابن أحمد بن البطرواني وأبي عبد اللّٰه الحسین بن أحمد بن طلحۃ النعالي وطلحۃ بن محمد الزینبي وغیرھم، مثل أبي الحسن علي بن الحسین بن أیوب وأبي الحسین أحمد بن عبد القادر بن یوسف و فخر الإسلام أبي بکر محمد بن أحمد الشاشي، واشتھر ذکرھا، وبعد
[1] الأدب المفرد للبخاري (۱/ ۳۸۲)