کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 606
کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم حدیث کی خدمت کے لیے پیدا کیاتھا۔[1] اس حدیث کی سند میں تیسرے راوی محمد بن بشر العبدی کا شمار علما و حفاظ میں ہوتا ہے۔ ابن معین نے انھیں ثقہ کہا ہے، جیسا کہ الخلاصہ میں ہے۔[2] باقی راویوں کے حالات گذشتہ اوراق میں گزر چکے ہیں ۔ پس حدیث شفاء بنت عبد اللہ کی صحت میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا، لیکن کسی تنگ نظر و متعصب آدمی سے ذرا بعید نہیں کہ وہ اس صحیح الاسناد حدیث کو رد کر ے اور موضوع و باطل احادیث سے تمسک کرے، کیونکہ منکرین حق کا یہی شیوہ رہاہے۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون! یہ بیان احادیث کی تحقیق و تنقید پر مشتمل تھا۔اب ائمہ کے اقوال ملاحظہ فرمائیں ۔ علامہ اردبیلی ’’ازہار شرح المصابیح‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’قال الخطابي: فیہ دلالۃ علی أن تعلم النساء الکتابۃ غیر مکروہ‘‘ انتھی [خطابی فرما تے ہیں کہ یہ حدیث عورتوں کو لکھنا سکھانے کے جواز پر بلا کراہت دلالت کرتی ہے] حافظ ابن قیم ’’زاد المعاد‘‘ میں کہتے ہیں : ’’وفي الحدیث دلیل علی جواز تعلیم النساء الکتابۃ ‘‘[3] انتہی [حدیث میں عورتوں کو لکھنا سکھانے کے جوازکی دلیل موجود ہے] الشیخ العلامہ ابن تیمیہ ’’منتقی الاخبار‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’وھو دلیل علی جواز تعلیم النساء الکتابۃ‘‘[4] انتھی [یہ حدیث خواتین کو لکھنا سکھانے کے جواز کی دلیل ہے۔ ختم شد] اس مسئلے کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک اثر سے ہوتی ہے، جسے بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ کے ’’باب الکتابۃ إلی النساء وجوابھن‘‘ میں روایت کیا ہے: ’’ثنا أبو رافع قال ثنا أبو أسامۃ قال ثنا موسی بن عبد اللّٰه قال حدثنا
[1] تقریب التھذیب (ص: ۴۰۳) [2] الخلاصۃ (ص: ۳۲۸) [3] زاد المعاد (۴/ ۱۸۵) [4] منتقی الأخبار مع نیل الأوطار (۹/ ۸۴)