کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 605
رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم وأنا قاعدۃ عند حفصۃ، فقال: ما علیک أن تعلمي ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ ‘‘[1] انتھی [ ابو نعیم نے طبرانی سے اس طرح روایت کیا ہے کہ شفاء بنت عبد اللہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تم مرض نملہ کے جھاڑ پھونک کی تعلیم حفصہ کو کیوں نہیں دیتی، جس طرح تم نے انھیں کتابت کی تعلیم د ی ہے؟] نسائی نے سنن کبری کے کتاب الطب میں روایت کیا ہے: ’’حدثنا إبراھیم بن یعقوب عن علي بن عبد اللّٰه المدیني عن محمد ابن بشر عن عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز عن صالح بن کیسان عن أبي بکر بن سلیمان بن أبي حثمۃ عن الشفاء بالحدیث المذکور‘‘[2] اسی طرح حافظ جمال الدین المزّی نے ’’تحفۃ الأشراف‘‘ میں اور علامہ شوکانی نے نیل میں نسائی کی سند سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس کی سند کو درست قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی سند میں پہلے راوی حافظ ابو یعقوب ابراہیم بن یعقوب بن اسحاق الجوزجانی ہیں ۔ نسائی و دارقطنی نے انہیں ثقہ کہا ہے ۔ دار قطنی کہتے ہیں : وہ حفاظ مصنفین میں سے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ناصبی تھے۔ قیام دمشق میں احمد ان سے مراسلت کیا کرتے تھے اور ان کی بہت عزت و تکریم کیا کرتے تھے، جیسا کہ الخلاصہ و غیرہ میں ہے۔[3] ناصبیت کے انتساب سے اس حدیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ حدیثِ شفاء سے ناصبیوں کے مسلک کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیل اصول (حدیث) میں مذکور ہے۔ اس حدیث کی سند میں دوسرے راوی علی بن عبداللہ المدینی سے متعلق ابن حجر التقریب میں فرماتے ہیں : آپ ثقہ، ثبت اور حدیث و علل میں اپنے عہد کے امام تھے، حتیٰ کہ بخاری کہتے ہیں کہ میں نے ان کے سوا کسی کے سامنے خود کو کمتر نہیں سمجھا۔ ان کے استاد ابن عیینہ کہا کرتے تھے کہ جس قدر وہ مجھ سے مستفید ہوتے ہیں ، اس سے زیادہ میں ا ن سے مستفید ہوتا ہوں ۔ نسائی کہتے ہیں
[1] الإصابۃ في تمییز الصحابۃ (۷/ ۷۲۸) [2] سنن الکبریٰ للنسائي (۴/ ۳۶) [3] الخلاصۃ (ص: ۲۳)