کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 602
’’عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز بن مروان الأموي: نزیل المدینۃ، وثقہ ابن معین وأبو داود والنسائي وأبو زرعۃ وابن عمار، وزاد: لیس بین الناس فیہ اختلاف، وحکی الخطابي عن أحمد عنہ قال: لیس ھو من أھل الحفظ، یعني بذلک سعۃ المحفوظ، وإلا فقد قال یحییٰ بن معین: ھو ثبت، روی شیئا یسیرا، وقال أبو حاتم: یکتب حدیثہ، وقال میمون بن الأصبغ عن أبي مسھر: ضعیف الحدیث، وقال یعقوب بن سفیان: حد ثنا أبو نعیم حدثنا عبدالعزیز وھو ثقۃ‘‘[1] [عبدالعزیز بن عمر بن عبد العزیز بن مروان اموی مدنی کو ابن معین ، ابو داود، نسائی ، ابوزرعہ، ابن عمار وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن عمار مزید کہتے ہیں کہ ان کی ثقاہت میں کوئی اختلاف نہیں ۔ خطابی، احمد سے روایت کرتے ہیں کہ یہ حفاظ میں سے نہیں تھے، یعنی ان کی محفوظات کا دائرہ وسیع نہیں ۔ یحییٰ بن معین انھیں ثبت کہتے ہیں ۔ ابو حاتم ان سے کتابت حدیث کی اجازت دیتے ہیں ۔ ابو مسہر کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں ضعیف ہیں ۔ یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ ابونعیم ان سے روایت کرتے ہیں اور انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں ] پس عبد العزیز کی توثیق جمہور محدثین نے کی ہے، مثلاً یحییٰ بن معین، ابوداود ، نسائی، ابو زرعہ، ابو نعیم، ابو حاتم اور ابن عمار۔ بلکہ ابن عمار تو فرماتے ہیں کہ علما کے نزدیک ان کی ثقاہت میں کوئی اختلاف نہیں ، لہٰذا ابو مسہر کا انھیں بغیر کسی دلیل کے ضعیف قرار دینا قابل اعتنا نہیں ۔ اس حدیث کی سند میں چوتھے راوی صالح بن کیسان مدنی کو ابن معین، احمد اور ایک جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے، جیسا کہ سیوطی کی کتاب ’’إسعاف المبطأ برجال الموطأ‘‘ اور ’’الخلاصۃ‘‘ وغیرہ میں موجود ہے۔[2] اس حدیث کی سند میں پانچویں راوی ابو بکر بن سلیمان بن ابی حثمہ مدنی بھی ثقہ اور علم الانساب کے ماہر ہیں ، جیسا کہ التقریب میں موجود ہے اور الخلاصہ میں ہے کہ زہری کہتے ہیں کہ آپ
[1] فتح الباري (۱/ ۴۲۰) [2] الخلاصۃ (ص: ۱۷۱)