کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 601
بالنیات، وکذلک قال في زید بن أبي أنیسۃ: في بعض حدیثہ نکارۃ۔ وھو ممن احتج بہ البخاري ومسلم، وھما العمدۃ في ذلک‘‘ انتھی
[ابن دقیق العید شرح الالمام میں فرماتے ہیں : جب کسی راوی کے بارے میں کہا جائے کہ اس کے پاس مناکیر ہیں تو صرف اس بنا پر اس کی روایت ترک کر نا مناسب نہیں ۔ لیکن جب اس کے پاس مناکیر کی کثرت ہوجائے، حتیٰ کہ اسے منکرالحدیث کہا جانے لگے تو اس سے روایت ترک کر دی جائے گی۔ دوسری عبارت کا مطلب ہے کہ وہ کبھی کبھار منکر روایت بیان کرتا ہے نہ کہ ہمیشہ۔ احمد بن حنبل نے محمد بن ابراہیم تیمی کو منکر حدیثیں بیان کرنے والا کہا ہے، جبکہ ان سے حدیثیں روایت کرنے میں شیخین متفق ہیں ، نیز حدیث انما الاعمال بالنیات کا دارومدار بھی اسی راوی پر ہے، اسی طرح زید بن ابی انیسہ کا معاملہ ہے]
ان باتوں سے قطع نظر اس حدیث کی روایت میں ابراہیم بن مہدی کی متابعت و توثیق ابراہیم بن یعقوب بن اسحاق نے کی ہے اور اس میں دوسرے راوی ثقہ راوی ہیں ، جن کی روایت سنن کبری نسائی میں موجو د ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر آئے گا۔
اس حدیث کی سند میں دوسرا راوی حافظ علی بن مسہر قرشی ابو الحسن کوفی کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے، جیسا کہ الخلاصہ اور دیگر کتب میں موجود ہے۔[1] اس حدیث کی سند میں تیسرے راوی عبد العزیز بن عمر بن عبدالعزیز بھی ثقہ ہیں ۔ ائمہ ستہ نے ان سے روایت کیا ہے۔ خلاصہ میں کہا:
’’وثقہ ابن معین وأبو داود‘‘[2] انتھی [ا بن معین اور ابو داود نے انھیں ثقہ کہا ہے۔ ختم شد]
میزان الاعتدال میں ہے:
’’ وثقہ جماعۃ، وضعفہ أبو مسھر وحدہ‘‘[3] انتھی
[ایک جماعت کے نزدیک یہ ثقہ ہیں ، صرف ابومسہر نے ان کی تضعیف کی ہے]
حافظ ابن حجر مقدمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں :
[1] الخلاصۃ (ص: ۲۷۷)
[2] الخلاصۃ (ص: ۲۴۰)
[3] میزان الاعتدال للذھبي (۴/ ۳۶۹)