کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 600
[میرے شیخ فرماتے ہیں : مترو ک یا سا قط یا فاحش الغلط یا منکر الحدیث کے الفاظ ضعیف، لیس بقوی اور فیہ مقال سے زیادہ سخت ہیں ]
وقال العراقي في تخریجہ الأکبر للإحیاء: ’’وکثیرا ما یطلقون المنکر علی الراوي لکونہ روی حدیثا واحدا ونحوہ‘‘
[عراقی نے احیاء العلوم کی تخریج میں فرمایا: اکثر منکر کا اطلاق اس راوی پر ہوتا ہے جس نے محض ایک یا د و حدیث روایت کی ہو]
وقال الذھبي: قولہم: ’’منکر الحدیث‘‘ لا یعنون بہ أن کل ما رواہ منکر، بل إذا روی الرجل جملۃ، وبعض ذلک مناکیر فھو منکر الحدیث‘‘
[ذہبی فرماتے ہیں : منکر الحدیث کا اطلاق کسی راوی کی تمام روایت کو منکر نہیں بناتا ہے، بلکہ اس کی مرویات کا کچھ حصہ اس کی زد میں آتا ہے]
قال السخاوي: ’’قلت: وقد یطلق ذلک علی الثقۃ إذا روی المناکیر عن الضعفاء، قال الحاکم: قلت للدارقطني: فسلیمان بن شرحبیل؟ قال: ثقۃ۔ قلت: ألیس عندہ مناکیر؟ قال: یحدث بہا عن قوم ضعفاء، فأما ھو فثقۃ‘‘
[سخاو ی فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ اس کا اطلاق ثقہ راوی پر ہوتا ہے، جب وہ ضعفا سے منکر روایتیں نقل کرے۔ حاکم کہتے ہیں کہ میں نے دارقطنی سے پوچھا: سلیمان بن شرحبیل کیسا راوی ہے؟ کہا: ثقہ ہے۔ میں نے کہا: کیا اس کی روایت منکر نہیں ؟ کہا: وہ ضعیف لوگوں سے بیان کرتا ہے]
و قال ابن دقیق العید في شرح الإلمام: قولہم: ’’روی مناکیر‘‘ لا یقتضي بمجردہ ترک روایۃ حتی تکثر المناکیر في روایۃ، وتنتہي إلی أن یقال فیہ: منکر الحدیث، لأن منکر الحدیث وصف في الرجل یستحق بہ الترک بحدیثہ، و العبارۃ الأخری یقتضي أنہ وقع لہ في حین لا دائما،کیف وقد قال أحمد بن حنبل: محمد بن إبراھیم التیمي یروي أحادیث منکرۃ، و ھو ممن اتفق علیہ الشیخان، وإلیہ المرجع في حدیث: إنما الأعمال