کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 599
نملہ ایک قسم کا پھوڑا ہوتا ہے جو پہلو میں نکلتا ہے اور نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس کا مریض ایسا محسوس کرتا ہے کہ اس پر چیونٹیاں حرکت کر رہی ہیں۔ نملہ کی یہی تفسیر درست ہے۔ بعض اہل علم نے اس کے دوسرے معانی بھی بیان کیے ہیں ، لیکن وہ صحیح نہیں ۔ واﷲ اعلم أما رجال ھذا الإسناد: ’’فإبراھیم بن مہدي المصیصي، قال في الخلاصۃ: وثقہ أبو حاتم‘‘، وقال الذھبي في المیزان: ’’روی عنہ أحمد وأبو عاصم، وقال: ثقۃ، وقال العقیلي: حدث بمناکیر، ثم أسند إلی یحییٰ بن معین أنہ قال: إبراھیم بن مھدي جاء بمناکیر‘‘[1] انتھی [اس حدیث کی سند کے روات میں ابراہیم بن مہدی مصیصی ہیں ، خلاصہ میں ہے کہ ابوحاتم نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ذہبی میزان میں فرماتے ہیں : احمد اور ابو عاصم نے ان سے روایت کی اور انھیں ثقہ کہا۔ عقیلی نے انہیں منکر حدیثیں بیان کرنے والا کہا، پھر یحییٰ بن معین کا ایک قول پیش کیا کہ ابراہیم بن مہدی مناکیر روایت کرتے ہیں ] ’’وفي التقریب: ھو مقبول من العاشرۃ‘‘[2] انتھی [اور التقریب میں ہے کہ یہ مقبول ہے دسویں طبقے سے] اگر کہیں کہ ابن معین اور عقیلی کی اس جرح سے کہ ’’حدث بمناکیر‘‘ ان کی ذات مجروح ہوتی ہے تو بفضلہ تعالیٰ میں کہتا ہوں کہ ابراہیم بن مہدی ثقہ راوی ہیں ۔ ابو حاتم اور ابوعاصم نے ان کی توثیق کی ہے اور یہ جملہ کہ یہ منکر حدیثیں بیان کرنے والے ہیں ، ا ن کی ثقاہت پر مانع نہیں ہوتا۔ مزید برآں محدثین کے نزدیک ’’ھو منکر الحدیث‘‘ اور’’حدث بمناکیر‘‘ میں بہت فرق ہے۔ علامہ شمس الدین سخاوی ’’فتح المغیث‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’قال شیخنا: قولہم: متروک أو ساقط أو فاحش الغلط أو منکر الحدیث، أشد من قولھم: ضعیف أو لیس بقوي أو فیہ مقال‘‘[3]
[1] الخلاصۃ (ص: ۲۲) میزان الإعتدال (۱/ ۶۸) [2] تقریب التھذیب (۱/ ۹۴) [3] فتح المغیث للسخاوي (۱/ ۳۷۳)