کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 52
رکھنے والے مستفید ہو رہے ہیں ۔ ان کی دوسری مطبوعہ تحریریں بھی اپنے موضوع پر بے نظیر ہیں ۔ ضرورت ہے کہ انھیں از سر نو ایڈٹ کر کے شائع کیا جائے۔ زیر نظر مجموعے کی ترتیب کے لیے دراصل یہی خیال محرک بنا ہے ۔ اس میں علامہ عظیم آبادی کی وہ تمام ارد و و فارسی اور چند عربی تحریریں جمع کر دی گئی ہیں ، جو انھوں نے وقتاً فوقتاً کسی سوال کے جواب میں لکھی تھیں اور ہمیں متفرق طور پر دستیاب ہوئی ہیں ۔ اس مجموعے سے علم حدیث میں ان کی مہارت کے ساتھ ان کی فقہی بصیرت اور مجتہدانہ صلاحیت کا بھی پتا چلتا ہے۔ علامہ عظیم آبادی نے اپنی طالب علمی کے دور میں اور اس کے بعد وفات تک بہت سے فتوے لکھے ۔ افسوس کہ ان سب کی نقل محفوظ نہ رکھی گئی، ورنہ کئی ضخیم جلدیں تیار ہوجاتیں ۔ چند مسائل کا مجموعہ انھوں نے ’’تنقیح المسائل‘‘ کے نام سے تیار کیا تھا، مگر اس کی ترتیب و تکمیل بھی اپنی حیات میں نہ کر سکے۔[1] اپنے گھر پہ وہ عموماً مسائل کی تحقیق اورفتویٰ لکھنے میں لگے رہتے۔ان کے شاگرد رشید مولانا ابو القاسم سیف بنارسی(م ۱۳۶۹ھ) کا بیان ہے کہ ’’زیادہ وقت اسی کار خیر میں بسر ہوتا تھا۔‘‘[2] ان کے فتاویٰ کے دو ناقص مجموعے ’’چند فقہی مسائل اور ان کے جواب‘‘ کے نام سے خدابخش لائبریری (پٹنہ) میں زیر رقم ۲۶۸ و ۲۶۹ (مخطوطہ اردو) محفوظ ہیں ، جو ۲۰ (۷ اور ۱۳) فتاویٰ پر مشتمل ہیں ۔[3] ان میں سے بعض فتاویٰ پر جو تاریخ درج ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی زندگی کے آخری تین چارسال(۱۳۲۶۔۱۳۲۹ھ)کے کچھ فتاویٰ ہیں ۔[4] بعض ان کے تحریرکردہ نہیں ، بلکہ ان کی راہنمائی میں ان کے تلامذہ محمد عین الدین مٹیابرجی، محمدادریس (ان کے لڑکے) اور محمد عبد اللہ بن محمد ادریس کے لکھے ہوئے ہیں ۔[5] علامہ عظیم آبادی نے ان کی تائید و توثیق کی ہے۔فتاویٰ کے ان دونوں مجموعوں میں
[1] دیکھئے : یادگار گوہری (ص: ۱۱) نزھۃ الخواطر (۸/ ۸۰ ۱) [ع، ش] [2] اہل حدیث (امرتسر) ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۱۹ء (ص: ۹) [ع، ش] [3] مخطوطہ نمبر ۲۶۸ کے شروع میں ایک نوٹ دیا گیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ ابتدائی تین سوال و جواب عربی میں ہے اور وہ اس مجموعہ سے نکال کر ACC NO. 505 کے ساتھ چسپاں کر دیئے گئے ہیں ۔ اس طرح کل تعداد ۲۳ ہوجاتی ہے۔ ہمیں کئی بار تلاش و جستجو اور لائبریرین سے رجوع کرنے کے بعد بھی ان تینوں کا سراغ نہ مل سکا۔ [ع، ش] [4] دیکھئے: فتویٰ نمبر (۳۷، ۳۸، ۳۹، ۴۰، ۴۴، ۴۵، ۴۷، ۵۱) [ع، ش] [5] دیکھئے: فتویٰ نمبر (۳۷، ۳۸، ۳۹، ۴۰، ۴۵، ۴۷) [ع، ش]