کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 50
ان مجموعوں کے مقابلے میں مولانا ثنا ء اللہ امرتسری (م۱۳۶۷ھ) کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاوی ثنائیہ‘‘ نسبتاً زیادہ مشہور اور متداول ہے۔یہ در اصل اخبار ’’اہل حدیث‘‘ (امرتسر) میں ’’باب الفتاویٰ‘‘ کے تحت شائع ہونے والے سوالات اور ان کے مختصر جوابات پر مشتمل ہے، جن کی ترتیب و تدوین کا کام مولانا محمد داود راز دہلوی نے کیا ہے اور ان ہی کے زیر اہتمام دہلی سے دو جلدوں میں اس کی اشاعت ہوئی۔ دوسری بار لاہور میں بھی ۱۹۷۲ء میں چھپا ہے۔ اس میں ہر طرح کے سوالات اور ان کے جواب مذکور ہیں ۔ پرچے میں اشاعت کے پیش نظر جواب عموماً مختصر الفاظ میں ہیں ۔ مسائل پر تفصیلی بحث کم ہی نظر آتی ہے۔ کتاب پر نظر ثانی مولانا شرف الدین دہلوی نے کی ہے۔ جگہ جگہ انھوں نے حواشی اور تعلیقات لکھے ہیں ، جن میں مسائل کی توضیح اور دلائل کا ذکر ہے۔ کہیں کہیں اختلافی نوٹ بھی درج کیے ہیں ۔ اس مجموعے میں مولانا امرتسری اور دوسرے لوگوں کی ایسی بہت سی تحریریں بھی شامل ہیں ، جن کا فتاویٰ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’اہل حدیث‘‘ کی تمام جلدیں (۱۹۰۳ ۔ ۱۹۴۷ء) بھی مرتب کے پیش نظر نہ تھیں ۔ ضرورت ہے کہ از سر نو ان کے تمام فتاویٰ جمع کیے جائیں ۔[1]
مولانا امرتسری کے مد مقابل مولانا عبد اللہ روپڑی (م ۱۳۸۴ھ) نے بھی اپنے پرچے ’’تنظیم اہل حدیث‘‘ میں فتاویٰ کا ایک باب رکھا تھا۔ اس میں ان کے سیکڑوں فتاویٰ شائع ہوئے، جو بعد میں کتابی شکل میں ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘ کے نام سے کئی جلدوں میں مرتب کیے گئے، جن میں سے بعض چھپ چکی ہیں ۔ مولانا روپڑی، غزنوی علما کے تربیت یافتہ تھے۔ اس لیے عقائد کے باب میں مسلکِ سلف کے وہ بھی زبردست حامی اور صفاتِ باری میں تاویل کے سخت خلاف تھے۔ فروعی مسائل میں بھی ان کے یہاں بڑا تشدد تھا۔ان کے فتاویٰ میں ان امورکا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
متاخرین میں گوجرانوالہ کے مولانا محمد اسماعیل سلفی (م ۱۳۸۷ھ) نے بھی بہت سے فتاویٰ لکھے، جو ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) اور دوسرے پرچوں میں شائع ہوئے۔ ان کا ایک مختصر مجموعہ ’’فتاویٰ سلفیہ‘ کے نام سے لاہور میں چھپا ہے۔ مولانا کی تحریریں بڑی مدلل اور فکر انگیز ہوتی ہیں ۔ فتاویٰ میں بعض عصری مسائل سے متعلق انھوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کی دقتِ نظر کا پتا چلتا ہے۔
ان کے علاوہ بہت سے علما ہیں ، جن کے فتاو یٰ کتا بی شکل میں شائع نہیں ہوئے۔ ضرورت
[1] ہمارے فاضل دوست بدر الزماں نیپالی نے ایک مقالے میں ’’فتاویٰ ثنائیہ‘‘ پر تنقیدی تبصرہ کیا ہے، جو محمد داود راز دہلوی کی مرتب کردہ کتاب ’’حیات ثنائی‘‘ میں شامل ہے۔ [ع، ش]