کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 49
ان کے مجموعہ فتاویٰ میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ایک دوسرے عالم مولانا عبدالجبار غزنوی (م۱۳۳۴ ھ) کی ’’بستان المحققین لبشارۃ السائلین‘‘ (معروف بہ مجموعۃالفتاویٰ، ملقب بہ العروۃ الوثقٰی) بھی فتاو ے کے مشہور مجموعوں میں سے ہے۔ یہ ’’فتاویٰ غزنویہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کی پہلی جلد (۲۵۶ صفحات) امرتسر سے شائع ہوئی تھی۔ غالباً دوسری جلد بھی اس کے بعد چھپی، جیسا کہ پہلی جلد کے اخیر میں اعلان سے اندازہ ہوتا ہے۔ اس مجموعے میں عربی، فارسی اور اردو تینوں ہی زبانوں میں فتاویٰ ہیں ۔ عقائد سے متعلق سوالات کے جوابات خالص سلفی نقطئہ نظر سے اور بڑی تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔صفات الٰہی کے باب میں خاص طور پر غزنوی علما نے مسلکِ سلف کو بڑے مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ فروعی مسائل میں بھی وہ ہمیشہ عمل بالکتاب و السنہ کے داعی رہے۔ زہد و تصوف کے میدان میں بھی متاخرین صوفیا کے مبتدعا نہ افکار و خیالات کے اثر سے محفوظ تھے۔ ان تمام خصوصیات کا اندازہ فتاویٰ کے اس مجموعے سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا عبد اللہ غازی پوری (م ۱۳۳۷ھ) کے فتاویٰ کا مجموعہ اب تک طبع نہیں ہوا ہے۔ اس کے دو قلمی نسخے بنارس اور مبارک پور میں میری نظر سے گزرے ہیں ۔ دوسرے نسخے میں فتاویٰ کی ترتیب و تبویب کا کام مولانا عبد الرحمن مبارک پوری (م۱۳۵۳ھ) نے کیا ہے۔ پہلا نسخہ مسودے کی شکل میں اور غیرمرتب ہے۔ اس مجمو عے میں غالباً ان کے وہ فتاویٰ بھی شامل ہوں گے، جو الگ سے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں طبع ہوئے ہیں مثلاً ’’زکوٰۃ کا فتویٰ‘‘ (۱۲ صفحات)، ’’علم غیب کا فتویٰ‘‘ (۲۰ صفحات) بحیرہ اور سائبہ کی تحقیق سے متعلق فتویٰ بہ عنوان ’’الحجۃ الساطعۃ في بیان البحیرۃ والسائبۃ‘‘ (۲۱ صفحات) ۔ ان فتاویٰ میں مولانا نے مسائل کی تحقیق جس انداز میں کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تفسیر، حدیث اور فقہ پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ ضرورت ہے کہ ان کے فتاویٰ کا مجموعہ ایڈٹ کر کے شائع کیا جائے۔ ’’إرشاد السائلین إلی المسائل الثلاثین‘‘ میں مولانا عبدالجبار عمرپوری (م۱۳۴۴ھ) نے تیس اہم سوالات کے جواب لکھے ہیں ۔ یہ کتاب کلکتہ سے ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی ہے اور افسوس کہ اس وقت میرے پیش نظر نہیں ۔ اس لیے اس کے مشمولات سے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔