کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 48
اور وہ ہر ایک کو صاف اور واضح اسلوب میں مدلل جواب دے کر مطمن فرماتے۔ان کے زمانے میں فرقہ بندی اور مذہبی تعصب کی وہ صورت نہ تھی، جو افسوس کہ آج تمام مکاتبِ فکر کے یہاں پائی جاتی ہے اور علمی افادے و استفادے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ میاں صاحب کے معاصرین میں شیخ حسین بن محسن انصاری (م۱۳۲۷ھ) کے ذریعے علم حدیث کو بڑا فروغ ہوا۔ نواب صدیق حسن خاں کے دور میں انھوں نے یمن سے ہجرت کرکے بھوپال میں سکونت اختیار کرلی تھی اور وہیں اپنا مسندِ درس بچھا رکھا تھا، جہاں سیکڑوں علما و طلبہ ان سے مستفید ہوئے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت سے فتاوے اور فقہی رسائل بھی لکھے، جن کا مجموعہ ان کی وفات کے بعد ’’نور العین من فتاویٰ الشیخ حسین‘‘ کے نام سے ان کے لڑکے شیخ محمد نے دو جلدوں میں تیار کیا تھا، افسوس کہ اس کی صرف پہلی جلد لکھنؤ سے ۱۳۲۲ھ میں شائع ہوئی، دوسری کا کوئی پتا نہ چل سکا۔ ان فتاویٰ کے اندر شیخ حسین نے ہر مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے اور پوری تحقیق کے بعد دلائل کی روشنی میں راجح مسلک کی تعیین کی ہے۔ ان میں سے بعض سوالات ان کے شاگرد علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے کیے تھے، جن کے جواب الگ سے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی شکل میں بھی چھپ چکے ہیں اور اس مجموعے میں بھی شامل ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علامہ عظیم آبادی ان سے بہت متاثر تھے۔ فتویٰ نویسی کا جو طرز انھوں نے اختیار کیا تھا، وہ غالباً اپنے استاد ہی سے سیکھا تھا۔ شیخ حسین چونکہ بڑے محدث ہیں ، اس لیے کسی موضوع پر بحث کر تے وقت احادیث کی تحقیق و تنقید بسط و تفصیل سے کرتے ہیں اور تمام مآخذ کی طرف رجوع کرلینے کے بعد ہی کسی مسئلے پر آخری رائے دیتے ہیں ۔ میاں نذیر حسین او ر شیخ حسین بن محسن کے تلامذہ میں بہت سے علما فتویٰ نویسی کے میدان میں مشہو ر ہوئے۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م ۱۳۲۹ھ) کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ ان کے علاوہ مولانا محمد سعید بنارسی (م۱۳۲۲ھ) کے فتاویٰ کا ایک مختصر مجموعہ (۲۴ صفحات) ’’فتاویٰ سعیدیہ‘‘ کے نام سے چھپا ہے، جو متعدد اختلافی مسائل کے جوابات پر مشتمل ہے۔ ان کے ذاتی مطبع سعیدالمطابع، بنارس سے ’’مسائل با دلائل‘‘ (۱۶ صفحات) نام کی ایک کتاب بھی چھپی ہے، جس پر مولف کا نام درج نہیں ۔ اغلب یہ ہے کہ اس کے مولف بھی مولانا محمد سعید ہی ہیں ۔ مولانا کی پور ی زندگی مختلف فیہ فقہی مسائل کی تحقیق اور مسلک اہل حدیث کی تائید میں گزری۔ ان پر مناظرانہ رنگ غالب تھا، جس کے اثرات