کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 47
راجح قول کی تعیین کی ہے۔ چونکہ ان کتا بوں میں سے بعض فارسی میں ہیں اور ایک صدی قبل بھوپال میں چھی تھیں اور اب نادر و نایاب ہیں ، اس لیے ان سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا جاتا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتابیں اس موضوع پر بعد کی عربی اور اردو تالیفات سے بدرجہا بہتر ہیں ۔ ضرورت ہے کہ انھیں از سر نو ایڈٹ کر کے عربی اور اردو میں شائع کیا جائے۔
سید نذیر حسین دہلوی (م ۱۳۲۰ھ) کے فتاویٰ کثیر تعداد میں تھے۔ ان کا ایک نہایت ہی مختصر مجموعہ دو ضخیم جلدوں میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی وغیرہ کی کوششوں سے دہلی میں ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر دوسری بار ۱۹۷۱ء میں لاہور میں بھی تین جلدوں میں چھپا ہے۔ اہل حدیث حضرات عام طور پر فتویٰ نویسی کے وقت میاں صاحب کی رائے معلو م کرنے کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اس میں تقریباً اکثر فقہی مسائل مل جاتے ہیں ۔ ان پر بحث بھی نسبتاً تفصیلی ہوتی ہے۔ میاں صاحب کی عادت تھی کہ اکثر وہ اپنے تلامذہ سے جواب لکھوایا کرتے تھے اور وہ بڑی تحقیق اور تلاش و جستجو کے بعد حدیث و فقہ کی کتابوں سے جواب کے لیے مطلوبہ مواد فراہم کیا کرتے تھے، جو نادر نقول اور اقتباسات پر مشتمل ہوتا تھا۔ پھر خود ہی جواب لکھ کر میاں صاحب کو دکھلایا کرتے۔ وہ اس پر تائیدی و توضیحی نوٹ لکھ دیا کرتے ۔ اس کے بعد وہ سائل کے نام روانہ کر دیا جاتا۔ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ کے بہت سے فتاویٰ اس طرح فی الواقع میاں صاحب کے لکھے ہوئے نہیں ۔ ہر فتوے کے اخیر میں لکھنے والے کا نام مذکور ہے۔ اگر کوئی چاہے تو پوری کتاب میں سے ایک شخص کے تمام فتاویٰ اکٹھا کرسکتا ہے اور ان سے اس کے فقہی آرا کا جائزہ لینے میں مدد لے سکتا ہے۔[1] اس ا عتبار سے یہ کتاب نہ صرف مفتیوں کے لیے بلکہ سوانح نگاروں اور مورخوں کے لیے بھی اہم ہے۔
اس کی اہمیت کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے میاں صاحب کے زمانے کے علمی، فکری اور مذہبی حالات کی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ غلام احمد قادیانی کی تکفیر سے متعلق سب سے پہلے میاں صاحب ہی نے فتویٰ دیا تھا۔ سر سید احمد خاں کے بعض افکار و خیالات پر تنقید، احناف اور ا ہل حدیث کے درمیان بحث مباحثہ اور مختلف مذہبی فرقوں اور شخصیات پر تبصرہ بھی اس میں موجود ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو اپنے زمانے میں کتنی مرجعیت اور شہرت حاصل تھی۔ ہر مکتبِ فکر کے لوگ ان کی طرف رجوع کرتے۔ علما بھی اپنے علمی سوالات ان کے سامنے پیش کرتے
[1] کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اشاریہ بھی شامل ہے، جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ [ع، ش]