کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 46
ہیں ، بلکہ خود امام ابو حنیفہ نے بھی ان سے متعلق رائے دی ہے۔ مگر مولانا بریلوی کو ان کے مطابق فتویٰ دینا پسند نہ آیا۔ ہمیشہ بدعت کو وہ سنت ثابت کر نے کی کوشش میں لگے رہے۔ آج تک یہی روش ان کے تمام متبعین نے اپنے فتاویٰ اور دیگر کتابوں میں اختیار کر رکھی ہے۔
احناف کے بعد جب ہم علماے اہل حدیث کے فتاویٰ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں فتاویٰ نویسی کا ایک دوسرا انداز نظر آتاہے۔ وہ کسی ایک امام کی تقلید کے بجائے تمام ائمہ کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں ۔ مسائل کی تحقیق کے وقت پہلے براہ راست کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں ، پھر سلف صالحین (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین) کی آرا سامنے رکھتے ہیں اوردلائل کے مطابق جو قول راجح ہوتا ہے، اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں ۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ ان کے یہاں احادیث و آثار سے استدلال کرتے وقت اس بات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ پہلے ان کی چھان پھٹک کر لی جائے اور صرف صحیح احادیث پر اعتماد کیا جائے۔ حدیث کے علاوہ فقہ حنفی کی کتابوں پر بھی ان کی بڑی گہری نظر ہے۔ حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسلک کی فقہی کتابوں سے جا بجا اقتباسات دیے جاتے ہیں ، جن سے ان کی وسعتِ اطلاع کا علم ہوتا ہے۔ انھوں نے شروع سے مخصوص فقہی مسلک کے بجائے ’’فقہ حدیث‘‘ کی دعوت دی ہے اور تمام ائمہ مجتہدین کے احترام اور ان سب سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے۔ فقہ حنفی پر اکتفا کرنے کے بجائے انھوں نے مختلف فقہی مذاہب کے تقابلی مطالعے کی سفارش کی ہے۔ یہ رجحان ان کے فتاویٰ اور دوسری تمام فقہی تالیفات میں نظر آتا ہے۔
یہاں ان کی تمام کتبِ فتاویٰ کا جائزہ لینا ممکن نہیں ۔ ان میں سے چند نمایندہ کتابوں کا تذکرہ اور ان پر مختصر تبصرہ کیا جاتا ہے، تاکہ قارئین کو اس مکتبِ فکر کی مشہور اور معتمد کتابوں کا علم ہوسکے۔
تاریخی طور پر سب سے پہلے ہم نواب صدیق حسن خان (م ۱۳۰۷ھ) کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ، جو اس صدی کے ہندوستانی علما میں سرفہرست ہیں ۔ ان کی تین کتابیں ’’ھدایۃ السائل إلی أدلۃ المسائل‘‘ (۵۶۰ صفحات)، ’’بدور الأھلۃ من ربط المسائل بالأدلۃ‘‘ (۵۲۸ صفحات) اور ’’دلیل الطالب علی أرجح المطالب‘‘ (۱۰۱۲ صفحات) فقہ حدیث میں بے نظیر ہیں ۔ ان کتابوں میں نواب صاحب نے تمام مسائل مع دلائل درج کیے ہیں اور اختلافِ اقوال کی صورت میں