کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 45
حاضر کے پیدا شدہ مسائل سے متعلق ان میں تشفی بخش بحث نہیں ہوتی، جسے پڑھ کر جدید تعلیم یافتہ حضرات مطمن ہو سکیں ۔ اکثر علما اپنے اسلاف کے حوالے سے (جنھیں وہ بڑے بڑے القاب سے متصف کرتے ہیں ) ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں ، جن سے مرعوب ہوکر کوئی شخص ازسرنو مسائل کی تحقیق کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی جراَت نہیں کرسکتا۔ ’’تبلیغی نصاب‘‘ پڑھانے اور ’’بہشتی زیور‘‘ پہنانے کے بعد اگر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو اسے یہ فتاویٰ پوری کردیتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ ان کے اکثر علما اب تک اجتہاد کے قا ئل نظر نہیں آتے۔ ان کے نزدیک اب بھی اس کا دروازہ بند ہے اور قیامت تک بند رہے گا۔ حتیٰ کہ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی بھی ان کے بعض اسلاف کے بہ قول حنفی المذہب ہوں گے۔[1] اجتہاد کے بارے میں ان کا یہ نقطئہ نظر جمہور علماے محققین کے خلاف ہے۔[2] بریلوی علما فروعی مسائل میں اپنے دیوبندی بھائیوں کے ہم مسلک ہیں ، لیکن وہ ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ان تمام بدعات و خرافات کے قائل نظر آتے ہیں جو برصغیر میں رائج ہیں ۔ اپنے فتاویٰ میں وہ ان سے سر مو انحراف کووہابیت قرار دیتے ہیں اور اپنے تمام مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں ۔ ان کے پیشوا مولانا احمد رضا خاں بریلوی (م۱۳۴۰ھ)کے مجموعہ فتاویٰ ’’العطایا النبویۃ في الفتاویٰ الرضویۃ‘‘ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بدعات کی ترویج و اشاعت اور موضوع و بے اصل احادیث و اقوال سے ان کی تائید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس سلسلے میں انھیں حنفی مسلک کی فقہی کتابوں میں موجود اپنے علما کے فتوئوں کی بھی کوئی پروا نہ رہی۔ عقائد کے باب میں سیکڑوں مسائل ایسے ہیں ، جن کے بارے میں علماے احناف کے اقوال واضح طور پر موجود
[1] دیکھئے: شمس الدین قہستانی(م ۹۵۳ھ) کی ’’جامع الرموز‘‘ اور حصکفی(م ۱۰۸۸ ھ) کی ’’الدر المختار‘‘ (۱/ ۵۶) سیوطی (م۹۱۱ھ) نے اپنے رسالے ’’الإعلام بحکم عیسیٰ علیہ السلام‘‘ (الحادی للفتاوی: ۲/ ۱۵۵۔ ۱۶۷) اور ابن عابدین (م ۱۲۵۲ ھ) نے ’’رد المختار‘‘ (۱/ ۵۷) میں عیسیٰ علیہ السلام کے مقلد ہونے کی تردید کی ہے۔ اس طرح ملا علی قاری (م ۰۱۴ ۱ ھ) نے ’’المشرب الوردي في مذھب المھدي‘‘ اور طحطاوی (م ۱۲۳۱ ھ) نے ’’حاشیۃ الدرالمختار‘‘ میں امام مہدی کے حنفی ہونے سے متعلق ایک طویل افسانے کو بے اصل بتایا ہے اور ان کا مجتہد مطلق ہونا ثابت کیا ہے۔ [ع، ش] [2] دیکھئے: امیر صنعانی (م ۱۱۸۲ ھ) کا رسالہ ’’ارشاد النقاد الی تیسیر الاجتہاد‘‘ اور شوکانی (م۱۲۵۰ھ) کا رسالہ ’’القول المفید في أدلۃ الاجتہاد والتقلید‘‘ اور دیگر رسائل متعلق تقلید و اجتہاد۔ نیز دیکھئے: البدر المطالع (۲/ ۸۱ ۔ ۸۹) جہاں شوکانی نے ایک حق پسند شخص کے لیے شریعت پر عمل کرنے کی را ہ بتائی ہے۔ [ع، ش]