کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 44
سے استفادہ آسان ہوگیا۔ مولانا تھانوی کو دیوبندی حلقوں میں عصر حاضر کی سب سے زیادہ متبرک اور اثر آفریں شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کے فتاویٰ کی جو اہمیت ہوگی، وہ ظاہر ہے۔ آج بھی علماے دیوبند ان پراعتماد کرتے ہیں اور فتویٰ نویسی کے وقت ان کی رائے بلا چوں و چرا نقل کرتے ہیں ۔ مفتی کفایت اللہ دہلوی کے فتاویٰ کی ۹ جلدیں ’’کفایۃ المفتي‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں ۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بے شمار فتوے لکھے، جن کا تعلق ہر طرح کے دینی و دنیاوی امور سے ہے۔ جمعیتہ العلماء کے مؤسسین میں ہونے کی وجہ سے انھیں مسلمانوں کے ملی و سیاسی مسائل کا گہرا شعور تھا۔ جب کہ دوسرے دیوبندی مفتیوں کو عام طور پر سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ا نھوں نے اس طرح کے اکثر مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے اور جانب داری سے اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہے۔ اس لحاظ سے ان کے فتاویٰ کا مجموعہ قابل مطالعہ ہے۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ کی ترتیب و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک اس کی گیارہ (۱۱) جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ ادھر مدرسہ مظاہر علوم، سہارن پور کے فتاویٰ بھی ترتیب دیے جانے لگے ہیں ۔ ان کی پہلی جلد مولانا خلیل احمد سہارن پور ی کے فتاویٰ پر مشتمل طبع ہوچکی ہے، جس کا ذکر پہلے آچکا ہے علماے احناف کے فتاو یٰ کے مجموعوں پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے فقہی مسائل میں اپنے مذہب کی سختی سے پابندی کی ہے اور دوسرے مکاتبِ فکر کی آرا سے کم ہی استفادہ کیا ہے۔ اگر کہیں اپنے مذہب کے خلاف کسی کا قول نقل بھی کرتے ہیں تو اس غرض سے کہ اس کی تردید کریں ۔ عام طور پر اکثر مفتی حضرات فتاویٰ کی پچھلی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے فتوے لکھتے ہیں ۔ کتاب و سنت سے براہ راست مسائل کی تحقیق نہیں کرتے۔ دلائل میں اگر کہیں احادیث کا ذکر بھی کرتے ہیں تو ہر طرح کی رطب و یا بس اور صحیح و ضعیف اکٹھا کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ ان کی تنقید و تحقیق پر یا تو اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ اس طرح اختلافی مسائل میں دوسروں کے مقابلے میں ان کے دلائل کی حقیقت آشکار ا ہوجائے گی یا پھر حدیث میں اس جیسی صلاحیت کے مالک نہیں ہوتے، جس کا مظاہرہ وہ فقہی مباحث میں کیا کرتے ہیں ۔ایک اور نقص جو ان فتاویٰ میں نظر آتا ہے، وہ یہ کہ عصر