کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 43
تمییز کے بعد ہی استدلال کی عمارت کھڑی کریں گے، لیکن فتاویٰ کے اس مجموعے کو دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے۔ مولانا نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ مثال کے طور پر ہم یہاں عورتوں کو لکھنا سکھانے سے متعلق مولانا کے فتوے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔[1] جہاں اس کی ممانعت سے متعلق دو ضعیف حدیثیں بلا تحقیق نقل کر کے جواز کے دلائل کی طرف اشارہ کیے بغیر منع کا فتویٰ دے دیا ہے۔ اس موضوع پر علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے جس تفصیل و تحقیق سے ’’عقود الجمان في جواز تعلیم الکتابتہ للنسوان‘‘ میں کلام کیا ہے، وہ بے نظیر ہے۔[2] اس کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور دیگر مانعین کی رائے کیا وزن رکھتی ہے۔ مولانا عزیز الرحمن دیوبندی اپنے زمانے میں دار العلوم دیوبند کے مفتی تھے۔ انھوں نے ۱۳۲۹ھ سے ۱۳۳۴ھ تک جو فتوے لکھے، ان کا غیر مرتب مجموعہ آٹھ حصوں میں ’’عزیز الفتاویٰ‘‘ کے نام سے دیوبند سے ۱۳۵۷ھ میں شائع ہوا۔ مفتی محمد شفیع نے بھی دارالعلوم دیوبند کے زمانہ قیام میں (۱۳۴۹ تا ۱۳۶۲ھ) جو فتوے دیے تھے، ان کا مجموعہ ’’إمداد المفتین‘‘ کے نام سے آٹھ حصوں میں دیوبند میں چھپا تھا۔ ۱۳۸۴ھ میں مفتی محمدشفیع نے کراچی سے ان دونوں مجموعوں کو علاحدہ تبویب و ترتیب اور اصلاح کے بعد دوبارہ شائع کیا، جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ پھر اس کی ترتیب جدید اور مفتی محمد شفیع کے کراچی میں لکھے ہوئے کئی سو فتاویٰ کے اضافے کے بعد ۱۳۹۶ ھ ؍ ۱۹۷۶ء میں ’’فتاویٰ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے نام سے از سر نو اشاعت ہوئی۔ یہ مجموعہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں دیوبندی مکتبِ فکر کے دو بڑے مفتیوں کی رائیں جمع ہیں ، جن پر تقریباً اس کے تمام علما کا اتفاق ہے۔ چونکہ یہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند سے صادر کیے گئے تھے، اس لیے انھیں استناد کا درجہ حاصل ہے۔ فتاویٰ کی ترتیب و اشاعت میں مفتی محمد شفیع کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے تمام فتاویٰ(جو امداد الفتاویٰ یا ’’فتاویٰ امدادیہ‘‘ کی چار جلدوں اور پانچ تتموں نیز ’’حوادث الفتاویٰ‘‘ ’’ترجیح الراجح‘‘ اور رسالہ ’’النور‘‘ میں شائع شدہ فتاویٰ پر مشتمل ہے) کی جدید تبویب و ترتیب کے بعد چھے جلدوں میں ’’إمداد الفتاوی‘‘ کے نام سے کراچی میں شائع کیے (۱۳۸۲ھ تا ۱۳۹۳ھ)، اس طرح مولانا تھانوی کے زندگی بھر کے تمام فتاویٰ یکجا ہوگئے اور ان
[1] فتاوی خلیلیہ (ص: ۳۲۰ ۔ ۳۲۱) [ع، ش] [2] یہ زیر نظر کتاب میں شامل ہے۔ [ع، ش]