کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 40
ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اسے فارسی میں بھی لکھا۔ اس کے حصہ اول (جوعبادات سے متعلق ہے) کا ایک نسخہ پنجاب یونیورسٹی (لاہور) کی لائبریری میں محفوظ ہے۔[1]
’’فتاویٰ امینیہ‘‘ ۹۴۸ھ کے قریب مرتب کی گئی۔ مقدمہ میں مولف اپنا نام محمد امین بن عبیداللہ مومن آبادی بتاتا ہے اور لکھتا ہے کہ اس نے اپنی عمر اور دور شباب کا بڑا حصہ بخارا میں اجلہ فقہا کی صحبت میں گزارا، پھر اسے شوق پیدا ہوا کہ وہ فتاویٰ کا ایک مجموعہ تیار کرے، چنانچہ یہ کتاب لکھی۔ مصنف کے حالات تذکرہ و سوانح کی کتابوں میں نہیں ملتے۔ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ ہمایوں کے عہدِ حکومت میں بخارا سے ہندوستان آئے تھے۔ کتاب عام فقہی کتابوں کے طرز پر مرتب ہے۔ اس میں جابجا فقہ حنفی کے مشہور مآخذ کے حوالے دیے گئے ہیں ۔ بالخصوص ’’مختار الاختیار‘‘ سے کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کے قلمی نسخے ایشیا ٹک سوسائٹی، آصفیہ اور پنجاب یونیورسٹی میں موجود ہیں ۔[2]
’’فتاویٰ بابری‘‘ مشہور مغل حکمراں ظہیر الدین بابر کے زمانے ( ۸۹۹ ۔ ۹۳۹ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کے مصنف شیخ نور الدین خولانی کے حالات متداول کتابوں میں نہیں ملتے۔ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ زین الدین خو لانی کی اولاد میں سے ہیں ۔ کتاب کے دیباچے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ۹۲۵ھ کے اواخر میں بابر کی خدمت میں ان کو بازیابی حاصل ہوئی اور اسی کے حکم سے فتاویٰ کا یہ مجموعہ تیار کیا، جس میں فقہ حنفی کی کئی مستند کتابوں پر اعتماد کیا ہے اور ہر ایک کے لیے ایک علامت مقرر کی ہے۔ اس کتاب کے قلمی نسخے پٹنہ اور برہان پور میں موجود ہیں ۔[3]
مطبوعہ فارسی کتبِ فتاویٰ میں شاہ عبد العزیز دہلوی (م۱۲۳۹ھ) کی ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ اور مفتی سعد اللہ مراد آبادی (م ۱۲۹۴ھ) کی ’’الفتاویٰ السعدیۃ‘‘ مشہور ہے۔ ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ اب تک کئی بار طبع ہوچکی ہے۔ اس کا پہلا اڈیشن دو جلدوں پر مشتمل ۱۸۹۴۔ ۱۸۹۶ء میں شائع ہوا تھا۔اردو ترجمہ بھی ’’سرور عزیزی‘‘ کے نام سے عبد الواجد غازی پوری نے ۱۳۲۲ھ اور ۱۳۲۳ھ میں کیا تھا، جو دو حصوں میں چھپا ہے۔ اس ترجمے کا نیا اڈیشن جدید ترتیب و تبویب کے ساتھ کراچی سے ۱۹۷۶ء میں شائع ہواہے۔ شاہ عبدالعزیز نے وقت کے بعض اہم مسائل سے متعلق اپنی رائے کا بے لاگ اظہار کیا
[1] دیکھئے : برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ (ص: ۱۶۷۔ ۱۷۸) نیز معارف (اعظم گڑھ) مئی ۱۹۳۰ء۔ [ع، ش]
[2] تفصیل کے لیے دیکھئے : کتاب مذکور (ص: ۱۹۷۔ ۲۲۱) [ع، ش]
[3] تفصیل کے لیے دیکھئے: کتاب مذکور (ص: ۲۳۴۔ ۲۴۴) نیز معارف (اعظم گڑھ) ۱۹۵۰ء۔ [ع، ش]