کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 39
ذکر کیے جاتے ہیں ۔ شخصی فتاویٰ میں ہر عالم کی ذاتی رائے درج ہوتی ہے، جو ممکن ہے بہ قول مفتی کے خلاف ہو۔ بہر حال دونوں طرز کی کتبِ فتاویٰ اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ اس مختصر وضاحت کے بعد جب ہم گذشتہ صدی تک فتاویٰ کے فارسی مجموعوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں عربی کتابوں کی طرح اہمیت اور شہرت کی حامل کوئی کتاب نہیں ملتی ۔ ان میں سے اکثر تو دستبردِ زمانہ کی نذر ہو چکی ہیں ۔ جو بچی ہیں ، وہ بھی مختلف کتب خانوں میں قلمی صورت میں پڑی ہیں اور بہت کم ان کی طرف توجہ دی گئی ہے۔مطبوعہ کتابیں چند ایک ہیں ، جن تک مکہ مکرمہ میں ہماری رسائی نہ ہوسکی۔ ذیل میں ان تالیفات پر مختصر تبصرہ اپنی یاد داشت اور چند ماخذ و مراجع پر اعتماد کرتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ قلمی کتابوں میں ’’فتاویٰ قراخانی‘‘، ’’فتاویٰ ابراہیم شاہی‘‘(نسخہ فارسی) ’’فتاویٰ امینیہ‘‘اور ’’فتاویٰ بابری‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔ان میں سے پہلی کتاب جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے عہد (۶۸۸۔ ۶۹۵ھ) کی تالیف ہے۔ اس کے اصل مصنف کا نام صدرالدین یعقوب مظفرکرمانی ہے۔ ان کی وفات کے بعد اس کو موجودہ شکل میں قبول قراخان نے مرتب کیا۔ اسی کی نسبت سے اسے ’’فتاویٰ قراخانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ کتاب شروع سے آخر تک سوال و جواب کی صورت میں ہے۔ اس کے متعدد قلمی نسخے انڈیاآفس (لندن)، آصفیہ (حیدرآباد)، ایشیاٹک سوسائٹی (کلکتہ)، پنجاب یونیورسٹی (لاہور) اور پنجاب پبلک لائبریری (لاہور) میں موجود ہیں ۔[1] کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر سوال کا جواب دیتے ہوئے کسی مستند فقہی کتاب سے اقتباس دیا گیا ہے۔ ماخذ خواہ عربی ہو یا فارسی، اس کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے۔ ’’فتاویٰ ابراہیم شاہی‘‘ قاضی احمد بن محمد جونپوری (م۸۷۴ھ) کی تالیف ہے۔ حاجی خلیفہ کے بہ قول یہ فتاویٰ قاضی خان کی طرح مبسوط و مفصل کتاب ہے۔[2] مصنف نے (۱۶۰) کتابوں کی مدد سے سلطان ابراہیم شرقی والیِ جونپور (۸۰۳ ۔ ۸۴۴ھ) کے لیے اس کی جمع وتدوین کی۔فتاویٰ عالمگیری کے مقدمے میں اس کا غیر معتبر کتابوں میں شمار کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی کی تصنیف ہے۔ مگر یہ درست نہیں ۔ یہ کتاب پہلے غالباً عربی میں لکھی گئی، جس کے متعدد نسخوں کا
[1] تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے: برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ (ص: ۶۱۔ ۹۸) [ع، ش] [2] کشف الظنون (۱/ ۳ و ۲/ ۱۲۸۳) [ع، ش]