کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 38
قول ذکر کیا گیا ہے، جو راجح ہے۔ جملہ مسائل پر بحث و تمحیص اور ان کی تشریح و توضیح میں کمال احتیاط اور ذہانت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مسائل کی تکرار اور متن میں حشو و زوائدسے پرہیز کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ علماے فقہ کی ایک جماعت کی تگ و تاز علمی کا نتیجہ ہے، اس لیے ضخامت کے باوجود ان اغلاط و اسقام اور نقائص و عیوب سے بڑی حد تک پاک ہے، جو عام طور پر دوسری فقہی کتابوں میں نظر آتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مسئلے کے ماخذ کا حوالہ دیا گیا ہے اور فقہ حنفی کی تمام اہم اور قابل ذکر کتابیں شامل ہیں ۔ ابواب کی تقسیم اور مضامین کی ترتیب ’’ہدایہ‘‘ کے طرز پر ہے، جس کی وجہ سے تلاشِ مسائل میں کوئی دشوار ی نہیں ہوتی۔ فتاویٰ عالمگیری کی یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی و جہ سے اسے تمام عالم اسلامی میں قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ ہندوستان، مصر اور بیروت میں وہ بار بار چھپی۔ اس کے فارسی اور اردو اوربعض مباحث کے انگریزی ترجمے بھی ہوئے۔ ہندوستان کی انگریزی عدالتوں میں مسلمانوں کے شرعی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک مدت تک فتاویٰ عالمگیری پر عمل ہوتا رہا۔ آج بھی مفتی، قاضی اور محقق علما اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ آگے بڑھنے سے قبل اس حقیقت کا اظہار کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فتاویٰ کی مذکورہ بالا تمام کتابیں در اصل منتخب فقہی مسائل کے مجموعے ہیں ، جن کی تالیف اس مقصد کے پیش نظر عمل میں آئی ہے کہ مفتیوں ، قاضیوں اور فقیہوں کو ا پنے مذہب کے مفتی بہ اقوال معلو م کرنے میں مدد ملے اور ان کے مطابق مختلف مسائل میں لوگوں کی را ہنمائی اور شرعی عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے صادر کرنا آسان ہو۔ یہ مجموعے شخصی فتاویٰ سے کئی اعتبار سے مختلف ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ان میں استفتا اور افتا کی صورت نہیں ہوتی۔ دوسری یہ کہ ان میں تمام ممکن الوقوع مسائل فقہ کی مختلف کتابوں سے جمع کردیے جاتے ہیں ۔ اس طرح انھیں ایک مسلک کی فقہی آرا کا انتخاب کہا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ان سے کسی مخصوص زمانے میں پیش آئے ہوئے مسائل اور مشکلات کا علم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان میں عام طور پر پچھلی کتابوں کے اقتباسات ہوتے ہیں ۔ اپنے زمانے کے مسائل کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی جاتی۔چنانچہ کسی مخصوص زمانے کے سیا سی اور سماجی حالات، مختلف فکری رجحانات، رسم ورواج اور بدعات و خرافات کا پتا چلانے کے لیے ان کتابوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی۔ لیکن انھیں شخصی فتاویٰ پر یک گونہ فضیلت اس وجہ سے ہے کہ ان میں عام طور سے مذہب کے مفتی بہ اور راجح اقوال