کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 34
ان میں بہت سی اب مفقودہیں ۔ بعض کے قلمی نسخے مختلف لائبریریوں میں پائے جاتے ہیں ۔ کچھ طبع بھی ہوئی ہیں ، مگر ان کا حاصل کرنا دشوار ہے۔ ان میں سے چند اہم مجموعوں کا مختصر جائزہ لینا کافی ہوگا، جس سے مختلف مکاتبِ فکر کی مستند کتبِ فتاویٰ اور ان کی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اس صدی کے اوائل تک فتاویٰ کی اکثر کتابیں عربی یا فارسی زبان میں تھیں ۔ ادھر سو سال سے فتاویٰ عموماً اردو میں لکھے جانے لگے ہیں ۔ فتویٰ پوچھتے وقت سائل عام طور پر کسی مستند عالم دین یا معروف مدرسے کی طرف رجوع کرتا ہے، جہاں شعبہ افتا قائم ہوتا ہے۔ وہاں فتاویٰ صادر کرتے وقت ان کے نقول محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک عرصے کے بعد فقہی تبویب و ترتیب کے ساتھ افادئہ عام کی خاطر انھیں مجموعے کی شکل میں شائع کیا جاتا ہے۔ بہت سے اداروں کے فتاویٰ اب تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکے ہیں ۔ مطبوعہ مجموعوں میں ’’فتاویٰ دار العلوم دیوبند‘‘ مشہور ہے۔
بعض علما اور ادارے والوں نے اپنے زیر اہتمام شائع ہونے والے دینی پرچوں میں ’’باب الفتاویٰ‘‘ کے تحت بہت سے فتاویٰ شائع کیے۔ ان میں سے کچھ کتابی شکل میں بھی چھپ چکے ہیں ۔ کچھ فتوے اپنی علمی اہمیت اور مسئلے کی دینی نزاکت کے پیش نظر الگ سے پمفلٹ اور کتابچے کی شکل میں بھی شائع ہوئے، جیسے علامہ عظیم آبادی کا فتویٰ بابت مصافحہ و معانقہ بعد العیدین اور فتویٰ رد تعزیہ داری وغیرہ۔ اس طرح کے سیکڑوں کتابچے اس صدی میں طبع ہو چکے ہیں ۔
بر صغیر میں فتاویٰ پر گذشتہ صدی تک کی عربی تالیفات میں سے صرف ’’الفتاوی الغیاثیۃ‘‘ ، ’’الفتاوی الحمادیۃ‘‘ اور ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ (یا ’’الفتاویٰ الھندیۃ‘‘) اب تک زیور طبع سے ا ٓراستہ ہوسکی ہیں ۔ حسب ذیل گیارہ مجموعے قلمی صورت میں بر صغیر کے مختلف کتب خانوں کی زینت ہیں ۔[1]
1 الفتاویٰ السراجیۃ، تالیف:سراج الدین عمر بن اسحاق الغزنوی (م۷۷۳ھ) مخطوطہ در خدابخش لائبریری (پٹنہ)۔
[1] ان میں سے اکثر کتابوں اور ان کے مخطوطات کا ذکر زبیر احمد نے اپنی کتابThe Contribution of India to Arabic Literature (Lahore 1967) کے مختلف صفحات میں کیا ہے۔ نمبر ۸، ۹، ۱۰ پر مذکور کتابوں کی طرف اشارہ جمیل احمد نے ’’حرکۃ التألیف باللغۃ العربیۃ في الإقلیم الشمالي الھندي‘‘ (ص: ۲۱۴، ۲۱۵،۳۶۱، دمشق ۱۹۷۷ء) میں کیا ہے۔ [ع، ش]