کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 32
انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ اس میں تفسیر (جلد ۱۳ تا ۱۷)، حدیث (جلد ۱۸)، فقہ (جلد ۲۱ تا ۳۵)، اصول فقہ (جلد ۱۹ تا ۲۰)، عقیدہ (جلد ۱تا ۸ و ۱۲)، تصوف (جلد ۱۰ و ۱۱) اور منطق (جلد ۹) کے موضوعات پر بے نظیر بحثیں ملتی ہیں ۔ امام ابن تیمیہ کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا عجیب ملکہ عطا کیا تھا۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں ، بڑے ہی آسان اسلوب میں لکھتے ہیں ، جسے سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔[1] عربی کی متوسط استعداد رکھنے والا بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ کوئی بات بغیر دلیل کے نہیں کہتے۔ آیات و احادیث سے ایسا بر محل استدلال کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے استعمال کی سب سے مناسب جگہ یہی ہے۔ تیسری خصوصیت جو دوسری کتبِ فتاویٰ میں بہت کم نظر آتی ہے، یہ کہ صرف صحیح حدیثوں پر اعتماد کرتے ہیں ۔ وہ ضعیف اور ناقابل استدلال حدیثوں کی واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں ۔ چوتھی بات یہ کہ مسائل پر اتنی تفصیل سے کلام کرتے ہیں کہ ان کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ جاتا۔ یہ اور ان جیسی بہت سی خصوصیات ہیں ، جن کی بنا پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتاویٰ کا مجموعہ اس فن کی تمام کتابوں میں ممتاز ہے۔ یہ مجموعہ معروف معنوں میں صرف فتاویٰ پر مشتمل نہیں ، بلکہ ان کے دوسرے بہت سارے رسائل اور تالیفات کو حاوی ہے، اس لیے ہر طرح کے مباحث و مسائل سے متعلق امام ابن تیمیہ کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ کے افکار سے بعد میں آنے والے تمام مصلحین و مفکرین بڑی حد تک متاثر ہوئے۔ ان کے تلامذہ ابن قیم، ابن کثیر، ذہبی اورابن عبدالہادی وغیرہم کے علاوہ بہت سے علما و فقہا مسائل کی تحقیق، احادیث کی چھان بین، اصول و فروع میں کتاب و سنت کی طرف براہ راست رجوع، سلف صالحین (صحابہ، تابعین و تبع تابعین) اور ائمہ مجتہدین کے مسلک کے اتباع، اختلافی مسائل میں دلائل کی روشنی میں راجح قول کی تعیین اور کسی ایک مذہب کی سختی کے ساتھ پابندی کے بجائے اجتہاد اور آزادیِ فکر کی دعوت میں امام ابن تیمیہ کے ہم نوا ہیں ۔ عصرحاضر میں انھیں ’’سلفی‘‘ یا ’’اہل حدیث‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تقلیدی فقہ کے بجائے فقہ حدیث (یا فقہ سنت) کی دعوت دی۔
[1] یہاں میں ’’منہاج السنۃ‘‘ (۴/ ۱۵۸۔ ۱۵۹) کی طرف قارئین کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ، جہاں انھوں نے اپنے زمانے کے شعرا، اطبا اور انشا پردازوں کے بے جان اور مقفیٰ و مسجع اسلوب پر سخت تنقید کی ہے اور اسے خلافِ فصاحت قرار دیا ہے۔ [ع، ش]