کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 31
یہی روش امام ابن تیمیہ نے اختیار کی اور زندگی بھر اسی پر کار بند رہے۔ اس سلسلے میں انھیں اپنے ہم عصر علما سے اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں ، مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ہمیشہ اصول و فروع میں اشعریت اور تقلید کے بجائے عمل بالکتاب و السنہ کی دعوت دیتے رہے۔ ان کی تمام کتابیں اس کی کھلی شہادت دیتی ہیں ۔ ’’رفع الملام عن الأئمۃ الأعلام‘‘ میں انھوں نے ائمہ مجتہدین کو بعض صحیح احادیث کی مخالفت سے متعلق معذور سمجھنے کے لیے جو وجوہ و اسباب بیان کیے ہیں اور ایک طالب حق کو ان مسائل سے متعلق جو موقف اختیار کرنے کی دعوت دی ہے، وہ کسی مقلدسے بعید ہے۔ابن تیمیہ کے بعد ان کے تلمیذ رشید ابن القیم (م۷۵۱ھ) نے ’’إعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ میں تقلید و اجتہاد کے موضوع پر بڑی تفصیل سے لکھا اور جمود و تقلید کے بجائے کتاب و سنت کے نصوص پر عمل کرنے کی دعوت دی۔ تقلید کے مفاسد اور برے اثرات پر جس تفصیل کے ساتھ انھوں نے روشنی ڈالی ہے، میری معلومات کی حد تک وہ بے نظیر ہے۔ پچھلے سطور میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فقہی مسلک سے متعلق وضاحت اس لیے کرنی پڑی کہ کچھ لوگ انھیں فروع میں حنبلی سمجھتے ہیں اور اپنے اس تصور کے مطابق کہ اجتہاد کا دروازہ ائمہ مجتہدین کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے، انھیں مجتہد ماننے میں تامل کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ ان کے فتاویٰ کے مجموعے پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ان کا فقہی مسلک کیا ہے؟ امام ابن تیمیہ کے فتاویٰ اور مسائل کے متعدد مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں ۔ اخیر میں عبدالرحمن بن محمد بن قاسم اور ان کے لڑکے محمد نے تلاش و جستجو کے بعد جتنے فتاویٰ و رسائل مطبوعہ یا قلمی صورت میں دستیاب ہوسکے، وہ سب اکٹھے کر دیے۔[1] یہ مجموعہ ’’مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیۃ‘‘ کے نام سے (۳۵) جلدوں میں ریاض سے کئی بار شائع ہو چکا ہے۔ دو جلدوں میں اس کی فہرست بھی الگ سے چھپی ہے۔ اسے مختلف علوم و فنون سے متعلق مسائل و مباحث کا ایک
[1] اس میں ’’منہاج السنۃ‘‘ ، ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ ، ’’الاستقامۃ‘‘ ، ’’الصفدیۃ‘‘ ، ’’درء تعارض العقل والنقل‘‘، ’’بیان تلبیس الجہمیۃ‘‘،’’الرد علی المنطقیین‘‘ ، ’’النبوات‘‘ ، ’’الصارم المسلول‘‘، ’’الکلم الطیب‘‘، ’’المسودۃ في أصول الفقہ‘‘ اور ’’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘ شامل نہیں ہیں ۔ ’’جامع الرسائل‘‘ کے نام سے محمد رشاد سالم نے دو جلدوں میں جو مجموعہ شائع کیا ہے، اس کے اکثر رسائل بھی اس مجموعے میں نہیں ہیں ۔ باقی تمام چھوٹی بڑی الگ سے چھپی ہوئی کتابیں ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ میں داخل ہیں ۔ [ع، ش]