کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 30
سوال و جواب کے طرز پر مرتب نہیں ، بلکہ فقہاے حنابلہ کے فقہی اختیارات اور آرا کے مجموعے ہیں ، جنھیں فتاویٰ کے بجائے عام فقہی کتابوں میں شمار کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ابن حامد (م۴۰۳ ھ) کی ایک کتاب ’’تہذیب الأجوبۃ ‘‘ برلن کی لائبریری میں موجود ہے۔[1] مگر اس کے مشمولات اور اسلوب کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا دشوار ہے کہ وہ فتاویٰ کا مجموعہ ہوگا۔
فتاویٰ کے پورے ذخیرے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م ۷۲۸ھ) کا مجموعہ فتاویٰ منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ ابن تیمیہ کا شمار اگرچہ حنبلی مکتبِ فکر کے علما میں کیا جاتا ہے، لیکن در حقیقت انھیں مستقل مجتہد شمار کرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ انھوں نے فقہی مسائل میں تقلید کے بجائے اجتہاد کی روش اختیار کی ہے۔ وہ تمام مسائل کی آزاد تحقیق کرتے ہیں ۔ صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین کے اقوال اور دلائل کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہیں اور جو رائے کتاب و سنت سے زیادہ قریب اور دلائل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہوتی ہے اسے راجح قرار دیتے ہیں اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں ۔ کبھی کبھی وہ ائمہ اربعہ کے اقوال کی مخالفت کرتے ہیں ، جیسا کہ طلا ق تلاثہ کے مسئلے میں کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ روش مقلدین حنابلہ کی روش سے قطعاً مختلف ہے۔ کیونکہ وہ اپنے فقہی مسلک سے خروج کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ متاخرین نے جن کتابوں پر اپنا مذہب معلوم کرنے کے لیے اعتماد کیا ہے، ان میں ابن تیمیہ کی فقہی تالیفات شامل نہیں ۔
ابن تیمیہ کی حنبلیت در اصل عقائد اور اصول میں امام احمد بن حنبل کے طرز اور اسلوب کی پیروی کے مترادف ہے۔ اس انتساب کا فروعی مسائل میں ان کی تقلید سے کوئی تعلق نہیں ۔خود امام احمد نے ہمیشہ تقلید کے بجائے عمل بالحدیث کی دعوت دی ہے۔ ان کا ایک مشہور مقولہ ہے، جو انھوں نے اپنے ایک شاگرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’لا تقلدني ولا تقلدن مالکا و لا الشافعي ولا الأوزاعي، وخذ من حیث أخذوا‘‘[2]
’’نہ میری تقلید کرو، نہ مالک، شافعی اور اوزاعی کی۔ مسئلہ وہیں سے لو، جہاں سے ان لوگوں نے لیا ہے۔‘‘
[1] تاریخ الثراث العربی (جزء، ۳، ۱/ ۲۴۰) [ع، ش]
[2] دیکھیے: إعلا م الموقعین (۲/ ۳۰۲) إیقاظ ھمم أولی الأبصار (ص: ۱۳) اسی مفہوم کا ایک دوسرا قول امام احمد سے ’’جامع بیان العلم و فضلہ‘‘‘ (۲/ ۱۴۹) میں ابن عبدالبر نے بھی نقل کیا ہے۔ [ع، ش]