کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 28
مالکی فقہ کی کتابوں سے برصغیر کے لوگ مانوس نہیں ۔ ان میں مسائل و ابواب کی ترتیب حنفی فقہ کی کتابوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ ان کی بعض مشہور و معتمد کتابیں بڑے مغلق اور ادق اسلوب میں لکھی گئی ہیں ۔ مگر فتاویٰ کے اس مجموعے کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر علما نے بڑے واضح اسلوب میں فتوے لکھے ہیں ۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ یہ فتاویٰ عام طور پر عوام اور طلبہ کے لیے لکھے جاتے ہیں ، اس لیے ان میں مشکل اسلوب سے اجتناب کیا جاتا تھا۔
ان تین مجمو عوں کے علاوہ قاضی عیاض (م ۵۴۴ ھ) کے فتاویٰ کا ایک مختصر مجموعہ چھپاہے۔ اس کے علاوہ مطبوعہ کتابوں میں ’’نوازل المھدي الوزاني‘‘ المعروف بالمعیارالجدید (۱۱ جلدیں )، ’’أجوبۃ عبد القادر الفاسي‘‘، أجوبۃ أبي الحسن الصغیر‘‘ (یا الدر النثیر)، ’’أجوبۃ محمد بن ناصر الدرعي‘‘ (یا الأجوبۃ الناصریۃ)، ’’نوازل الشریف العلمي‘‘ ’’نوازل ابن ھلال الصنہاجي السجلماسي‘‘، ’’نوازل المناوي‘‘، ’’نوازل القاضي أبي عبد اللّٰه محمد بن عبد العزیز بردلۃ الفاسي‘‘، ’’نوازل أبي العباس أحمد بن محمد السوسی‘‘، ’’نوازل الشیخ التاوی بن سودۃ‘‘، ’’نوازل محمد بن الحسن المجاصي الفاسي‘‘، ’’أجوبۃ محمد بن المدني کنون المستاری‘‘ مالکی فقہا کے فتاویٰ کے معروف مجموعے ہیں ۔
حنبلی علما کے فتاویٰ کی کتابیں زیادہ دستیاب نہیں ۔[1] انھوں نے دوسرے مذاہب کے علما کے مقابلے میں اس فن پر کم توجہ د ی ہے۔ فقہ پر تو ان کی بہت سی تالیفات ہیں ، لیکن خاص طور پر فتاویٰ کے مجموعے زیادہ نہیں ۔عموماًان کااعتماداپنے مذہب کی مستند فقہی کتابوں پر رہتاہے۔جو ابن قدامہ (م۶۲۰ھ)، ابن مفلح (م۶۷۳ ھ)، علاء الدین المرداوی (م ۸۸۵ ھ ) اور منصور البہوتی (م ۱۰۵۱ ھ) کی تالیف کردہ ہیں ۔ یہاں فتاویٰ کی مناسبت سے ان ’’مسائل‘‘ کا ذکر کیا جاسکتا ہے، جو امام احمد بن حنبل کے مختلف تلامذہ نے بطور سوال و جواب مدوّن کیے ہیں ۔ یہ مسائل فقہ و حدیث اور عقائد و اخلاق کے مختلف موضوعات سے متعلق ہیں ۔ ان کے جوابات امام احمد نے مختصر انداز میں دیے ہیں ۔ بسا اوقات ایک ہی مسئلے سے متعلق ان مجموعوں میں ان کی مختلف آرا نظر آتی ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام احمد عموماً
[1] بعض کتابوں کا ذکر سالم علی ثقفی نے ’’مفاتیح الفقۃ الحنبلی‘‘ جلد دوم (طبع دوم ۱۹۸۲ء) کے مختلف صفحات میں کیا ہے۔ (دیکھیے اس کا اشاریہ بذیل: جوابات، مسائل، فتاویٰ) لیکن ان میں سے اکثر مفقود ہیں ۔ [ع، ش]