کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 240
تو جائز ہے اور قاضی کو چاہئے کہ وہ اسے ضرر اور تکلیف سے نجات دلائے۔ یہ طریقہ اس صورت میں اختیار کرے گی جبکہ اسے اس کے مفقود الخبرشوہر نے نان و نفقہ دے رکھا ہو اور اسے اس لحاظ سے تو پریشانی نہ ہو، مگر بغیر شوہر کے رہنا اس کے لیے دشوار ہو اور اگر ایسی ضرورت پیش آئے کہ نان و نفقہ کے لیے اس کے پا س کچھ نہ ہو تب تو یہی ایک وجہ نکاح فسخ کرانے کے لیے کافی ہے ۔ خواہ شوہر موجود ہو یا مفقود الخبر۔ مختلف آیا ت ا ور احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث: ’’اسلام میں ضرر و تکلیف خود سہنا ہے نہ دوسرے کو پہنچانا۔‘‘[1] مشہورہے، جوحضرت ابن عباس، عبادۃ بن صامت، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابولبابہ، ثعلبہ بن مالک، جابر، عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔[2]
[1] مسند أحمد (۱/ ۳۱۳)
[2] اس کے بعد مولانا نے ہر ایک کی حدیث نقل کرنے کے بعد اس کی تحقیق کی ہے۔ خالص فنی بحث ہونے کی وجہ سے یہاں اس کا ترجمہ کرنا عام قارئین کے لیے زیادہ مفید نہیں معلوم ہوتا۔ اہل علم اصل ماخذ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔ [ع، ش[