کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 24
جن کی ضرورت برابر ہی پڑتی رہتی ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس میں متاخرین کے متعدد اقوال میں سے صرف ایک یا دو قول ذکر کیے ہیں اور مشہور اور راجح قول کو مقدم رکھا ہے، تاکہ فتویٰ دیتے وقت علما کو دشوار ی نہ ہو۔ قاسم بن قطلوبغا کہتے ہیں کہ قاضی خان جس بات کی تصحیح کردیں ، اسے دوسروں کی تصحیح پر مقدم سمجھا جائے گا۔[1]
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘اور ’’فتاویٰ تاتار خانیہ‘‘کا ذکر آگے ہندوستانی علما کی تالیفات کے ضمن میں آرہا ہے۔ان کے علاوہ مطبوعہ کتابوں میں ’’نوازل أبي اللیث السمرقندي‘‘ (م۳۹۳ھ) سب سے قدیم ہے۔ مصنف نے اس میں پچھلے فقہا کے وہ اقوال جمع کیے ہیں ، جو نوازل و حوادث سے متعلق ہیں ۔ یہ کتاب حیدرآباد سے ۱۳۵۴ھ میں شائع ہوئی ہے اور بہت ہی غلط چھپی ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے قدیم مخطوطات کی روشنی میں پھر سے ایڈٹ کیا جائے۔[2]
تاریخی اعتبار سے اس کے بعد ابو ا لحسن سعدی (م ۴۶۱ھ) کی ’’النتف في الفتاویٰ‘‘ کا نمبر آتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اکثر مسائل میں احناف کے علاوہ دیگر ائمہ و علما کے اقوال بھی مصنف نے ذکر کیے ہیں اور فضول قسم کی عقلی توجیہ و تعلیل سے احتراز کیا ہے، اس طرح یہ کتاب قاضیوں اور مفتیوں کے لیے بہترین مرجع بن گئی ہے۔ اس میں بہت سے فقہی قواعد کا بھی ذکر ملتا ہے، جنھیں کتاب کے مرتب نے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔[3] یہ کتاب بغداد سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی ہے۔
دیگر مطبوعہ کتابوں میں ’’الفتاویٰ الطرسوسیۃ‘‘ یا ’’أنفع الرسائل إلی تحریر المسائل‘‘ لنجم الدین الطرسوسی(م ۷۵۸ھ)، ’’الفتاویٰ البزازیۃ‘‘ لابن البزازی (م۸۲۷ھ)، ’’الفتاویٰ الزینیۃ‘‘ لابن نجیم (م۹۷۰ھ)، ’’الفتاویٰ الحامدیۃ‘‘ لحامد آفندی القونوی(م ۹۸۵ھ)، ’’الفتاویٰ الخیریۃ لنفع البریۃ‘‘ لخیرالدین الرملی (م ۱۰۸۱ھ) اور ’’الفتاویٰ الأنقرویۃ‘‘ لمحمد بن الحسین الأنقروي (م ۱۰۹۸ ھ) معروف ہیں ۔ ان میں سے ہرایک پر تبصرے کے لیے مقدمے کے یہ صفحات کافی نہیں ۔
فتاوی کی بعض کتابیں اب تک غیر مطبوعہ صورت میں قدیم کتب خانوں میں محفوظ ہیں ۔ ان
[1] دیکھیے: الفوائد البہیۃ (ص: ۶۵) [ع، ش]
[2] سزگین نے ’’تاریخ التراث العربي‘‘ (جزء: ۳، ۱/ ۱۰۸) میں اس کے قلمی نسخوں کا ذکر کیا ہے۔ انھیں اس کے طبع ہونے کا علم نہیں ۔ [ع، ش]
[3] النتف (۲/ ۸۸۰۔ ۹۰۲) [ع، ش]