کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 23
نہیں کیا ہے۔ اگر کہیں حدیثوں کا ذکر آتا بھی ہے تو صحیح و ضعیف اور مر فوع و موقوف کے درمیان کوئی تمییز نہیں ہوتی۔ پورا زور اپنے مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج یا اپنے مسلک کے مختلف علما کے متعارض اقوال کے درمیان تطبیق و ترجیح میں صرف ہوتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے علما کے اقوال بلا دلیل درج کیے جاتے ہیں ۔ان کے بارے میں اصل ماخذ کی طرف رجوع کیے بغیر اطمینان نہیں ہوتا۔ بعض کتبِ فتاویٰ کے ان ہی نقائص کے پیش نظر نواب صدیق حسن خاں ، انھیں خرافات اور افسانے قرار دیتے ہیں اور ان میں پڑکر وقت ضائع کرنے سے روکتے ہیں ۔[1] اس لیے کہ وہ عموماً ایسے بہت سے اقتباسات اور تفریعات پر مشتمل ہوتے ہیں ، جن کی تائید قرآن و حدیث سے نہیں ہوتی۔ پھر ان مفتیوں کے اقوال ایک ہی مسلک سے متعلق ہونے کے باوجود باہم اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔ مگر ان خرابیوں کے باوجود اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ کتبِ فتاویٰ کا شمار تیسرے درجے کی کتابوں میں ہے، چند امور میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان سے تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کے سماجی، سیاسی، تمدنی اور فکری حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو کب کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے بارے میں علما کا کیا موقف رہا؟ ہر زمانے اور علاقے کے رسم و رواج اور مروجہ بدعات کی تصویر بھی ان کتابوں سے سامنے آتی ہے۔ علما کے فتاویٰ کا رد عمل عوام پر کیا ہوتا تھا؟ سلاطین و امرا اور طلبہ و عوام سے ان کے تعلقات کیسے تھے؟ ہر زمانے میں کن علما کو فتاویٰ نویسی کے میدان میں شہرت ملی؟ ان کے علم و فہم اور فقہ و بصیرت کا کیا حال تھا؟ یہ اور ان جیسے بیسیوں امور ہیں ، جن کے لیے کتبِ فتاویٰ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ہمیں تاریخ و تذکرے کی قدیم کتابوں کے ساتھ کتبِ فتاویٰ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ بعض اہل علم اب اس جانب متوجہ ہوئے ہیں اور فتاویٰ کا اس نقطئہ نظر سے مطالعہ کرنے لگے ہیں ۔[2] حنفی علما کی کتبِ فتاویٰ میں سب سے زیادہ شہرت کی حامل ’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ (م۵۹۲ھ) ہے۔ یہ آج تک احناف کے یہاں مقبول اور متداول ہے۔ مفتیوں اور قاضیوں کا عموماً اسی پر اعتماد رہتا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں ایسے مسائل مع حوالہ جمع کیے ہیں ، جو عام طور پر پیش آتے ہیں اور
[1] أبجد العلوم (۲/ ۳۹۵۔ ۳۹۶) [ع، ش] [2] دیکھیے: سعد غراب کا مضمون ’’کتب الفتاویٰ وقیمتہا الإجتماعیۃ‘‘ في: حولیات الجامعۃ التونیسیۃ، تونس (۱۶/ ۶۵۔ ۱۰۲) [ع، ش]