کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 21
[ ۲ ]
علم فتاویٰ کا شمار فقہ کے فروع میں ہوتا ہے۔ طاش کبریٰ زادہ (م ۹۶۸ھ) نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں جزئی واقعات کے بارے میں فقہا سے صادر ہونے والے فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں اور غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ بعد میں آنے والے قوتِ استنباط سے محروم لوگ سہولت کے ساتھ ان سے استفادہ کر سکیں ۔[1] عبد النبی احمد نگری لکھتے ہیں کہ فتاویٰ سے عموماً شریعت اسلامی کے وہ فروعی مسائل مراد ہوتے ہیں جن کے بارے میں کسی فقہی مکتبِ فکر کے بانی یا اس کے ساتھیوں سے کچھ منقول نہیں ہوتا اور متاخرین علما اپنے اجتہاد و استنباط کے ذریعے ان کا حل پیش کرتے ہیں ۔[2]
اس میدان میں بے شمار کتابیں تصنیف کی جاچکی ہیں ،[3] جن میں اکثر حنفی علما کی تصنیف کردہ ہیں ۔ ان کے علاوہ شافعی، مالکی اور حنبلی مکتبِ فکر کے علما نے بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق فتاویٰ کے مجموعے تیار کیے۔ مقلدین کے علاوہ سلفی نقطہ نظر کے حامل علما نے بھی ہر دور میں اس فن پرکتابیں لکھیں ۔ ان سب کا تفصیلی جائزہ لینا یہاں دشوار ہے۔ ان کی اگر ایک فہرست ہی تیار کردی جائے، تب بھی طوالت کی موجب ہوگی۔ ان کتابوں میں بہت سی تو اب مفقودہیں ۔ بعض کے قلمی نسخے مختلف لائبریریوں میں پائے جاتے ہیں ۔ کچھ مطبوعہ ہیں ، مگر صرف ایک بار طبع ہوئیں ۔ بہت کم ہی ایسی کتابیں ہیں ، جنھیں قبول عام اور استناد کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ اس لیے یہاں صرف اہم کتابوں کے ذکر پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ علماے احناف نے فقہی مسائل کے ضعف یا قوت کے اعتبار سے فتاویٰ کی کتابوں کو تیسرے درجے میں رکھا ہے۔[4] پہلے اور دوسرے درجے میں کتب ظاھر الروایۃ اور مسائل النوادر و الأمالي ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ حنفی مسلک کے یہ فتاویٰ انفرادی اوراجتماعی دونوں طریقوں سے جمع ہوتے رہے۔ یعنی بعض اوقات کسی فقیہ یا مفتی کے تمام فتاویٰ کو
[1] مفتاح السعادۃ (۲/ ۰۱ ۶، طبع قاہرہ) نیز دیکھیں : أبجد العلوم (۲/ ۳۹۵، طبع بیروت) [ع، ش]
[2] دستور العلماء (۳/ ۱۳) [ع، ش]
[3] دیکھیے: کشف الظنون (۲/ ۱۲۱۸۔۱۲۳۱، وغیرہ) مفتاح السعادۃ (۲/ ۶۰۱۔ ۶۰۴) یہاں صرف حنفی مسلک کی کتابیں مذکور ہیں ۔ مالکی مسلک کی کتب فتاویٰ کے لیے دیکھیے: مجلۃ ’’دعوۃ الحق‘‘، رباط، مارچ ۱۸۴(ص: ۱۵۵۔ ۱۵۷) [ع، ش]
[4] عقود رسم المفتي (ص: ۱۷) مفید المفتي (ص: ۷۱) [ع، ش]