کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 20
جملہ فقہاے اسلام کے اقوال کو فتاویٰ کی بنیاد بنا یا جائے۔ برصغیر میں اہل حدیث تو شروع ہی سے اس طریقے پر کاربند ہیں ۔ اخیر میں مفتی محمد شفیع دیوبندی نے اپنی بعض کتابوں میں حنفی مسلک کے بجائے مالکی مسلک کی بنیاد پر مفقود الخبر کی بیوی کے نکاح ثانی کے بارے میں فتویٰ دیا۔ ۱۹۷۲ء میں حیدر آباد کے اندر طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر جو سیمینار ہوا تھا، اس میں بھی حنفی علما نے اس مسئلے میں اپنا مسلک ترک کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ۔ اوپر فتویٰ نویسی کے عہد بہ عہد جائز ے سے واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں فتویٰ نویسی کے وقت احادیث و آثار اور فتاویٰ صحابہ و تابعین پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ بعد میں تقلیدی مذاہب وجود میں آئے اور ان کے اصول و ضوابط وضع کیے گئے، چنانچہ فتویٰ نویسی میں بھی جمود و تقلید کے آثار نمایاں ہوئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور دیگر فقہاے محدثین کی کوششوں سے پھر کتاب وسنت کی طرف براہ راست رجوع اور سلف صالحین (صحابہ، تابعین اورتبع تابعین) کے آرا و اقوال سے استفادے کی طرف توجہ ہوئی، جس کے نتیجے میں اہل حدیث اور سلفی علما کا ایک بڑا گروہ وجود میں آیا، جس نے اجتہاد کا دروازہ، جسے مقلدین نے ہمیشہ کے لیے بند کردیا تھا، پھر سے کھول دیا۔ عصرحاضرمیں اب تمام حق پسند اور منصف مزاج علما اجتہاد کی ضرورت کے قائل نظر آتے ہیں اور کسی ایک مذہب کی تقلید اور اس پر جمود کے بجائے تمام مذاہب سے استفادہ، ان کے تقابلی مطالعہ اور دلائل کی روشنی میں راجح مذہب کی تعیین کی دعوت دیتے ہیں اور نصوصِ کتاب و سنت کی مو جودگی میں قیاس کو غلط قرار دیتے ہیں ۔ یہ مقولہ اب زبان زد عام ہوچکا ہے کہ ’’الاجتہاد فیما لا نص فیہ‘‘ ( اجتہاد کو ان ہی مسائل میں دخل ہوگا، جن کے بارے میں کتاب و سنت میں کوئی نص وارد نہیں )۔ اس طریقہ کار کے مطابق اب فقہ کی کتابیں تیار کی جانے لگی ہیں ۔ شیخ سید سابق کی کتاب ’’فقہ السنۃ‘‘ ان میں سب سے زیادہ کامیاب کتاب تصور کی جاتی ہے۔ محدث العصر علامہ محمد ناصرالدین الالبانی کی کتاب ’’الثمر المستطاب في فقہ السنۃ والکتاب‘‘ اب تک طبع نہیں ہوئی ہے۔[1] امید ہے کہ وہ بھی اس موضوع پر شاہ کار ہوگی۔ اس مختصر سے تبصرے کے بعد اب ذیل میں کتبِ فتاویٰ کا ایک جائزہ لیا جا رہا ہے۔
[1] اب یہ کتاب بھی دو جلدوں میں طبع ہوچکی ہے۔