کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 19
دوسری صدی ہجری میں بعض اصول و قواعد میں اختلاف کی وجہ سے فقہا کے دو گروہ ہوگئے۔[1] ایک اہل حدیث کا گروہ تھا، جو احادث نبویہ اور صحابہ کے فتاویٰ کی بنیاد پر فتویٰ دیتا تھا، اور جب تک کسی واقعے کا ظہور نہ ہو جاتا، اس وقت تک اس کے بارے میں شرعی حکم بیان کرنے سے گریز کرتا تھا۔ اس گروہ میں علمائے حجاز کی غالب اکثریت شامل تھی۔ دوسرا گروہ اہل الرائے کا تھا، جس میں فقہاے عراق کی غالب اکثریت تھی۔ ان کے پاس چونکہ صحیح احادیث کم تھیں ، اس لیے انھوں نے فتویٰ دیتے وقت عام طور پر رائے اور قیاس کا کثرت سے استعمال کیا۔ بعض ایسے قواعد وضع کیے، جن کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ اور آیندہ پیش آنے والے بلکہ محال اور غیر ممکن الو قوع ہزاروں مسائل سے متعلق اپنی رائے ظاہر کی اور انھیں فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں جمع کر گئے۔ ائمہ مجتہدین کے بعد ان کے متبعین و مقلدین مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ فتاویٰ کے سلسلے میں اپنے مسلک کی توجیہ و تائید میں لگ گیا، اس طرح فتاویٰ کا اجرا اجتہاد کے بجائے تقلید کی بنیاد پر ہونے لگا۔ تقلید کی روش ایسی مرغوب ہوئی کہ ہر مفتی اپنے مذہب کے اصول وفروع کے ارد گرد گھومتا رہا ۔اسے براہ راست کتاب و سنت کی طرف رجوع اور دیگر ائمہ مجتہدین و فقہاے امت کی آرا سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ان مقلدین کے بالمقابل علماے حدیث کی ایک جماعت ہر دور میں ایسی بھی رہی ہے، جو سلف صالحین (صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین) کے طریقے پر کاربند رہی۔فتویٰ نویسی کے وقت انھوں نے وہی طریقہ اپنایا، جو سلف کے یہاں رائج تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م۷۲۸ھ)نے اپنے فتاویٰ میں اسی طریقے کی پیروی کی۔یہی وجہ ہے کہ بعض مسائل میں انھوں نے ائمہ اربعہ تک کی مخالفت کی ہے۔ گذشتہ دو تین صدیوں میں فتویٰ نویسی کے اس رجحان کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ ہندوستان، مصر اور دیگر بلاد عربیہ میں سلفی تحریک کے علم برداروں نے جمود و تقلید کے خلاف جو کوششیں کی ہیں ، ان کا اثر فتویٰ نویسی پر بھی پڑا ہے۔ اس رجحان سے مقلدین بھی جزوی طورپرمتاثر ہوئے۔ چنانچہ خلافت عثمانیہ کے عہد میں جب ۱۲۸۶ھ میں ’’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘‘ کی تدوین ہوئی تو پہلی بار مذاہب اربعہ کی تقلید سے ہٹ کر بعض مسائل میں ابن شبرمہ کے مسلک پر فتویٰ دیا گیا۔ پھر ۱۹۲۹ء اور ۱۹۳۶ء میں مصر میں تقلیدکی ڈ گر سے نکلنے کی کوشش ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ مصالح مرسلہ اور حالات و زمانے کی رعایت کرتے ہوئے
[1] دیکھیے: ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ کا مبحث: ’’باب الفرق بین أھل الحدیث وأھل الرأي‘‘ [ع، ش]