کتاب: مجموعہ مقالات و فتایٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی - صفحہ 15
رکھنے وا لا شخص بیان کرے۔ اکثر علما نے مفتی کے لیے اجتہاد کی شرط ضروری قرار دی ہے اور مقلد کے فتوے کو درست نہیں بتایا ہے، کیونکہ وہ دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرتاہے،اس طرح وہ عالم نہیں رہتا، ا ور جس کی یہ شان ہو، اسے دوسرے کو فتویٰ دینے کا مجاز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ اگرکوئی مجتہد عالم موجود نہ ہو تو ضرورت کے وقت مقلد بھی فتویٰ دے سکتا ہے۔[1] لیکن اس صورت میں بھی اس کے فتوے کو حقیقتاً فتویٰ نہیں کہا جائے گا، کیونکہ وہ صرف اتنا ہی کر سکتا ہے کہ اپنے امام کا قول نقل کردے۔[2] ا للہ و رسول کا حکم بتانا اور شریعت کے اندر صحیح اور غلط، راجح اور مرجوح، حلال اور حرام کی تمییز دلائل کی روشنی میں کرنا، اس کے بس سے باہر ہے۔ اس سلسلے میں کوئی رائے ایک مجتہد ہی دے سکتا ہے۔ جمہور علما کے برخلاف احناف کے نزدیک مفتی کے لیے اجتہاد شرطِ صحت نہیں ، البتہ اولیٰ اور بہتر ہے۔[3] یہی وجہ ہے کہ ان کے متاخرین علما کی کتابیں عام طور پر بے دلیل قیاسات اور تفریعات سے پُر ہیں ، جو قوتِ اجتہادسے محروم لوگوں کی کتاب و سنت سے نا واقفیت اور جمود پسند ذہنیت کی غمازی کرتی ہیں ۔
فتویٰ نویسی کے آداب اور مفتی و مستفتی سے متعلق مختلف مباحث کا جائزہ لینا طوالت کا موجب ہوگا۔[4] اس لیے ان سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں فتویٰ نویسی کی تاریخ، کتبِ فتاویٰ اور ان کی قدر وقیمت، اس فن میں علماے ہند و پاک کی تالیفات ا ور اخیر میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے زیرنظر مجموعہ فتاوی پر تبصرہ کیا جاتا ہے، تاکہ اصل فتاوی کے مطالعے سے قبل اس میدان میں علامہ عظیم آبادی کا مقام متعین کرنے میں مدد ملے اور ان کے فتاویٰ کی امتیازی خصوصیات واضح طور پر سامنے آسکیں ۔
[1] صفۃ الفتویٰ والمفتي والمستفتي لابن حمدان (ص: ۲۴) إعلام الموقعین (۱/۴۶) [ع، ش]
[2] إرشاد الفحول للشوکاني (ص: ۲۹۶) [ع، ش]
[3] دیکھیے: القول المفید في أدلۃ الاجتہاد و التقلید للشوکاني [ع، ش]
[4] تفصیل کے لیے دیکھیے: الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادي (۲/ ۱۵۲ ۔ ۲۰۵) آداب المفتي و المستفتي لابن الصلاح (بیروت ۱۹۸۶ء) المجموع للنووي (۱/ ۴۰۔ ۶۹) صفۃ الفتوی و المفتي والمستفتي لابن حمدان (تحقیق: محمد ناصر الدین الألباني، بیروت ۱۹۶۱ء)، إعلام الموقعین عن رب العالمین لابن القیم (قاہرہ ۱۹۵۵ء) [اردو ترجمہ بنام ’’دین محمدی‘‘ از محمد جونا گڑھی] أدب الفتیا للسیوطي (بیروت ۱۹۸۵ء) شرح عقود رسم المفتي لابن عابدین، في مجموعۃ رسائل ابن عابدین (۱/ ۹۔۵۲) الطلیحۃ لمحمد النابغۃ القلاوي الشنقیطي (قاہرہ۱۳۳۹ھـ)، ذخر المحتي من آداب المفتی للشیخ صدیق حسن خان (بھوپال ۱۲۹۴ھـ) الفتویٰ في الإسلام لجمال القاسمی (بیروت ۱۹۸۶ م) مفید المفتي از عبد الأول جونپوری (لکھنؤ ۱۳۲۶ھـ) الفتیا ومناھج الإفتاء لمحمد سلیمان الأشقر (کویت ۱۹۷۶ ء) [ع، ش]