کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 84
اور دن ختم نہ ہوجائے گا جب تک لات و عزی پوجی نہ جائے گی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں تو سمجھتی تھی کہ آیت کریمہ:﴿ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ﴾ إلی قولہ﴿وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾ جس وقت اتری، یہ امر پورا ہونے والا ہے (یعنی سواے دینِ اسلام کے کوئی دوسرا دین نہیں رہے گا اور آخر تک اسلام ہی کو قیام و ثبات رہے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہوگا، جب تک الله کو منظور ہے، پھر الله تعالیٰ ایک خوشبودار ہوا بھیجے گا، جس کی وجہ سے ہر مومن جس کے دل میں دانہ خردل برابر بھی ایمان ہوگا، مر جائے گا اور جس میں نہ ہوگا وہی لوگ باقی رہ جائیں گے اور وہ لوگ اپنے باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے (تو جس کے باپ دادا لات و عزی پوجنے والے تھے، وہ لات و عزی کو پوجنے لگیں گے اور پھر دنیا ختم ہوجائے گی اور قیامت آئے گی۔ فقط)
بھلا حدیث سے اور سوال سے کیا واسطہ ہے؟ اگر ہم حسبِ زعم باطل سائل فرض بھی کر لیں کہ وہ صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف کا ہے تو اس وقت حدیث کا مطلب یہ ہو جائے گا کہ اے عائشہ! جب تک تم لات و عزیٰ کو نہ پوجو گی، اس وقت تک دنیا ختم نہ ہوگی اور وہ زمانہ وہ وقت ہوگا کہ اس وقت سوا بت پرست مشرکین کے کوئی مومن زندہ نہ ہوگا تو معاذ الله اس سے تنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا بت پرست ہونا لازم نہ آئے گا، بلکہ اکثر اہلِ بیت اطہار و ائمہ اہلِ بیت رحمہم اللہ کا بھی بت پرست ہونا لازم آجائے گا، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کوئی زمانہ کوئی دن کوئی آن تمام عمر نہ گزرا کہ اس وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی امام ائمہ اہلِ بیت اور رجال و نسائِ اہلِ بیت میں سے نہ رہا ہو۔ سائل سے کمال تعجب ہے کہ مجمع البحرین کے ایک غلط ترجمے کے بھروسے پر سوال کر بیٹھا، یہ بھی نہ سوچا کہ اس حدیث کی راوی خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ، وہ کیونکہ ایسی حدیث کو دعویٰ مومنیت کے ساتھ اعلان کرتیں ۔ ضرور صاحبِ مجمع البحرین سے حدیث کے سمجھنے میں غلطی فاحش ہوئی ہے یا نقل ہی صحیح نہ ہو۔
سوال سوم:
بخاری (۵/ ۱۶۰) میں ہے: "قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم خطیبا فأشار نحو مسکن عائشۃ فقال: ھھنا ثلاثاً من حیث یطلع قرن الشیطان"فرمایا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے طرف خانہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے تین بار کہ اس جگہ شاخ ابلیس کی ہے۔ یہ حدیث اور ترجمہ مجمع البحرین سے لکھا گیا ہے، اس حدیث سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس گھر میں ضلالت بھری ہوئی تھی اور یہاں پر شاخِ ابلیس سے کیا مراد ہے اور سخت تردد کا مقام ہے کہ جس گھر میں شاخِ ابلیس ہو، وہاں پیوستہ پیغمبر خدا کی اوقات بسر ہو، در بعد رحلت کے وہی خانہ عائشہ مدفن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ فقط
جواب:
اس حدیث میں لفظ ’’فتنہ‘‘ و ’’قام‘‘ کا سائل نے شاید غلطی سے نہیں لکھا، ورنہ لفظ حدیث کا یوں ہے: