کتاب: مجموعہ فتاویٰ - صفحہ 83
سوال دوم: صحیح مسلم (۲/ ۳۹۴) میں ہے: "عن عائشۃ سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: لا یذھب اللیل والنھار حتی تُعبُدُ اللّاتِ[1] والعزی۔ فقلت: یا رسول اللّٰه إن کنت لأظن حین أنزل اللّٰه﴿ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ﴾ إلی قولہ﴿وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾ أن ذلک تام۔ قال: إنہ سیکون من ذلک ما شاء اللّٰه ، ثم یبعث اللّٰه ریحا طیبۃ فتوفي کل من في قلبہ مثقال حبۃ من خردل من إیمان فیبقیٰ من لا خیر فیھم فیرجعون إلی دین آبائھم"[2] یعنی دنیا ختم نہ ہوگی، اے عائشہ! جب تک کہ تم لات و عزی کو نہ پوجو۔ کہا ام المومنین نے اے رسول اللہ ! مجھے گمان تھا کہ جو مشرف بہ اسلام ہوا، رستگار ہے۔ فرمایا حضرت نے کہ عنقریب میرا گفتہ واقع ہوگا، یعنی جس کے قلب میں برابر دانہ خردل کے ایمان نہ ہو، اگرچہ بظاہر مومن ہو، اپنے دینِ آباءِ کفار میں داخل ہوتا ہے۔ یہ حدیث و ترجمہ اس کا مجمع البحرین سے نقل کی گئی ہے، فقط۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ عائشہ نے لات و عزی کی پرستش کی اور طرف دین کفار کے اپنے کو رجوع کیا۔ اگر یہ امر واقع نہ ہوا تو معاذ الله پیغمبر خدا پر جھوٹ فرمانا لازم آتا ہے اور اگر بموجب خبر کے صنم پرستی عائشہ سے صادر ہوئی تو ان کے کفر میں کیا شک ہے؟ فقط جواب: میں نہیں جانتا کہ صاحبِ مجمع البحرین کون شخص اور کس پایہ کا آدمی ہے اور اگر سائل کی نقل صحیح ہے اور جو عبارت ترجمہ کی سائل نے نقل کی ہے، وہ عبارت در حقیقت صاحب مجمع البحرین کی ہے تو صاحب مجمع البحرین محض ایک سادہ آدمی معلوم ہوتا ہے، اس کے ترجمہ کو حدیث سے کچھ تعلق نہیں اور ترجمہ کی صحت تو ایک طرف، صیغہ تک نہیں پہچانتا۔ شاید میزان بھی یاد نہیں ہے۔ حدیث کو صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب اور ضمیر مخاطب کو فاعل سمجھا ہے، حالانکہ میزان پڑھنے والا طالب العلم بھی اس صیغہ کو ایسا نہ سمجھتا۔ صیغہ واحد مونث غائب مضارع مجہول کا پڑھتا اور صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف سمجھنے والے کو ہنستا اور کہتا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خطاب ہوتا اور صیغہ واحد مونث حاضر مضارع معروف کا استعمال مقصود ہوتا تو "تعبدین" اور"أن"مقدرہ بعد"حتی"کے عمل سے نون اعرابی گر کے ’’تعبدي‘‘ پڑھا جاتا۔ اب صاحبِ مجمع البحرین کی غلطی کہاں تک بیان کریں ؟ حدیث کا ترجمہ صحیح بیان کر دیتے ہیں ، اس سے ناظرین غلطی سمجھ لیں گے اور سوال کا لغو ہونا جان جائیں گے۔ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ رات
[1] اصل سوال میں ایسے ہی مرقوم ہے۔ [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۰۷)